ترکیہ کی ثالثی میں قرن افریقا کے 2پڑوسی صومالیہ اور ایتھوپیااپنے تنازع کو حل کرنے کے لیے مشترکہ اعلامیے پر متفق ہو گئے۔ صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا کہ دونوں ممالک انقرہ میں ان کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے اختتام پرایک معاہدے پر پہنچ گئے ہیں۔ یہ معاہدہ ایک تاریخی قدم ہوگا جو قرن افریقا کے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان کشیدگی کو ختم کرے گا۔ انقرہ میں صومالی صدر حسن شیخ محمود اور ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران اردوان نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ تاریخی معاہدہ موغادیشو اور ادیس ابابا کے درمیان امن اور تعاون پر مبنی ایک نئی شروعات کی طرف پہلا قدم ہو گا۔ ترکیہ کی طرف سے شائع کردہ معاہدے کے متن کے مطابق فریقین نے اختلافات اور متنازع مسائل کو ترک کرنے اور خوشحالی کی طرف مشترکہ تعاون کو مضبوطی سے آگے بڑھانے پر اتفاق کیا۔ متن کے مطابق دونوں ممالک نے تجارتی اور دوطرفہ معاہدوں کی منظوری کے لیے کام کرنے پر بھی اتفاق کیا جو ایتھوپیا کو وفاقی جمہوریہ صومالیہ کی خود مختار اتھارٹی کے تحت سمندر تک قابل اعتماد، محفوظ اور پائیدار رسائی کی ضمانت دے گا۔ اس مقصد کے لیے دونوں ممالک فروری کے اختتام سے پہلے تکنیکی بات چیت کا آغاز کریں گے جو زیادہ سے زیادہ 4ماہ تک جاری رہے گی۔ اس چیت کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کو بات چیت کے ذریعے دور کرنا ہے۔ اس حوالے سے جہاں انہیں ضرورت پڑی تو ترکیہ ان کی مدد کرے گا۔
شام میں بشارالاسد کی بے دخلی اور مزاحمت کاروں کی فتح کے بعد افریقی ممالک کے درمیان جاری تنازع کے حل کو ترکیہ کی ایک اور بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ ترکیہ کی ثالثی میں صومالی صدر اور ایتھوپیا کے وزیر اعظم نیمذاکرات کا ایک نیا دور شروع کیا ہے،جب کہ مذاکرات کے ابتدائی 2ادوار میں کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ انقرہ میں جون اور اگست میں ہونے والی بات چیت کے دوران ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے دونوں ممالک کے سربراہان سے ملاقات کی تھی، تاہم اس دوران فریقین نے آپس میں ملاقات سے اجتناب کیا تھا۔ انقرہ کی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ ایتھوپیا کو صومالیہ کے راستے بین الاقوامی پانیوں تک رسائی کی اس طرح ضمانت دیتا ہیکہ موغادیشو کی خودمختاری متاثر نہ ہو۔ اردون نے اپنے بیان میں اس یقین کا اظہار کیا کہ 8گھنٹے کی بات چیت کے بعد طے پانے والا معاہدہ ایتھوپیا کی سمندر تک رسائی کی ضمانت دے گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آج کی ملاقات کے ذریعے میرے بھائی شیخ محمود ایتھوپیا کے لیے سمندر تک پہنچنے کے لیے ضروری مدد فراہم کریں گے۔ اس موقع پر ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابی احمد نے کہا کہ ہم نے گزشتہ سال ہونے والی غلط فہمی کو دور کر لیا ہے۔ ایتھوپیا سمندر تک محفوظ اور قابل اعتماد رسائی چاہتا ہے، جس سے ہمارے پڑوسیوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس دوران صومالی صدر نے اپنی زبان میں گفتگوکی جس کا براہ راست ترکیہ میں ترجمہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ انقرہ معاہدے نے موغادیشو اور ادیس ابابا کے درمیان تنازع ختم کر دیاہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کا ملک ایتھوپیا کے حکام کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
ترکیہ کی سفارتی کامیابی ‘ مصر کے لیے کتنی اہم؟
افریقی ممالک میں معاہدہ ترکیہ کے لیے اس طور پر فائدہ مند ہے کہ انقرہ حکومت صومالیہ کی رضامندی سے بحیرہ احمر میں صومالیہ کی معیشت میں گیس کے ذرائع تلاش کرنے کے مواقع حاصل کرسکتی ہے۔ اس طرح جہاں افریقا میں ترکیہ کا اثر رسوخ بڑھے گا وہاں مقامی حکومتیں انقرہ پر اعتماد کرتے ہوئے اسے معدنی ذخائر تک رسائی فراہم کرسکتی ہیں۔ افریقی ممالک کے پاس ترکیہ کی تیزی سے ترقی کرتی دفاعی صنعت سے بھی استفادے کے بھر پور مواقع میسر ہوں گے۔ جہاں تک مصر کا تعلق ہے توبظاہر یہ معاملہ صومالیہ میں اقوام متحدہ کے امن مشن کے اندر مصری افواج کی موجودگی کو متاثر نہیں کرے گا۔ کیوں کہ یہ ایک مختلف معاملہ ہے اور اس کی نگرانی اقوام متحدہ کرتی ہے۔
مصری فوجی ماہر اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کے مشیر میجر جنرل اسامہ محمود کبیرکا کہنا ہے کہ ترکیہ کی سرپرستی میں مفاہمت کے حوالے سے یہ بات ایتھوپیا کے لیے بہت سود مندہے کہ اس نے مفاہمتی معاہدے پر دستخط کردیے ہیں کیوں کہ اسے اس مفاہمت کی یادداشت کے نقصان یا ختم ہونے کی فکر تھی۔ اس مفاہمت پر اس نے تقریباً 3 ماہ قبل صومالی لینڈ پر دستخط کیے تھے،جس کے تحت صومالی لینڈ صومالیہ کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔ اس سے قبل اسے غیر قانونی سفارتی اقدام اور صومالیہ کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت سمجھا جاتا تھا۔
صومالیہ: تین عشروں پر محیط کہانی
صومالیہ میں 3 عشروں سے بدامنی کا دور دورہ ہے اور 1991ء میں فوجی حکمران سید بارے کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے شروع ہونے والی بدامنی آج بھی جاری ہے۔ 1990ء کی دہائی میں قبائلی ملیشیا اور جنگجو سرداروں کے مابین لڑائی کا سلسلہ شروع ہو ااورصومالیہ میں قحط کی صورتحال پیدا ہوگئی جس سے اقوام متحدہ اور امریکاکو صومالیہ میں فوجی مداخلت کا موقع ملا۔ صومالیہ کے جنگجو سرداروں نے اقوام متحدہ اور امریکا کے سامنے اتنی مزاحمت کی کہ انہوں نے وہاں سے اپنے فوجیوں کو واپس بلانے میں ہی عافیت جانی۔ صومالیہ میں 1991ء سے لے کر 2006ء تک بدستور جنگ جاری رہی ۔ یونین آف اسلامک کورٹس پہلا شدت پسندوں گروپ تھا جس نے پہلی بار موغادیشو کو مکمل طور پر کنٹرول کر لیا۔ یونین آف اسلامک کورٹس کے موغادیشو پر مکمل کنٹرول کے بعد امریکا کی مدد سے ایتھوپیا نے صومالیہ پر حملہ کر دیا۔ ایتھوپیا کی فوج نے یونین آف اسلامک کورٹس کو موغادیشوسے تو بھگا دیا لیکن زیادہ عرصہ تک اپنا کنٹرول قائم کرنے میں ناکام رہی اور واپس ایتھوپیا چلی گئی۔ یونین آف اسلامک کورٹس کے منظر عام سے ہٹنے کے بعد القاعدہ سے منسلک الشباب نامی تنظیم سامنے آ گئی۔ اقوام متحدہ کی مدد سے چلنے والی صومالیہ کی حکومت اور الشباب تنظیم کے شدت پسندوں کے درمیان اکثر لڑائی ہوتی رہتی ہے۔
گزشتہ 30برس کی اس بدامنی کے باجود صومالیہ کے کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں حالات قدرے بہتر ہیں۔ صومالیہ کا شمالی علاقہ قدرے پرسکون ہے،جن میں صومالی لینڈ سب سے زیادہ امن ہے۔ صومالی لینڈ کی آزادی کو عالمی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا لیکن وہاں جمہوری نظام حکومت قائم ہے اور اقتدار کی پرامن منتقلی بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پنٹ لینڈ بھی اپنے معاملات آزادانہ انداز میں چلا رہا ہے۔ پنٹ لینڈ صومالیہ کا حصہ ہی رہنا چاہتا ہے اور وہ ان قزاقوں کاگڑھ سمجھا جاتا ہے جو تاوان کے لیے بحری جہازوں کو اغوا کرتے ہیں۔خانہ جنگی اور معیار زندگی
حیران کن حقیقت یہ ہے کہ 3عشروں کی بدامنی کی باوجود صومالیہ میں معیارِ زندگی پہلے سے بہتر ہو رہا ہے۔ صومالیہ افریقی ممالک کے مقابلے میں اب بھی غریب ہے لیکن اس کی معیشت اور لوگوں نے حکومت کے بغیر ہی پھلنا پھولنا سیکھ لیا ہے۔ صومالیہ کی پچھلے دو عشروں میں شرح نمو اور اوسط عمر میں بدستور اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں صحت کی سہولتیں انتہائی ناکافی ہیں لیکن اس کے باوجود نومولود بچوں کے بچ جانے کے امکانات 1991 ء سے بہتر ہوئے ہیں۔