میانوالی کی تحصیل پپلاں میں باپ کی شفقت سے محروم طالبہ اپنی اور اہلِ خانہ کی کفالت کے لیے چنچی رکشہ چلانا شروع کردیا۔ ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق جب باپ کا سایا سر سے اٹھ گیا تو نویں جماعت کی طالبہ کے کاندھوں پر گھر چلانے کی ذمہ داری آ پڑی۔ رفیعہ نے چنچی رکشہ چلانا شروع کردیا۔ چھوٹی سی عمر میں بلند حوصلے کی مثال بن کر رفیعہ گھر والوں کی بخوبی کفالت کر رہی ہے۔
رفیعہ نے چنچی رکشہ چلانے کے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی ہے۔ وہ پڑھ لکھ کر اپنے لیے شاندار کریئر کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ پہلے پہل لوگوں سے مذاق اڑایا۔ کچھ لوگ گھور گھور کر دیکھتے رہے مگر اب وہ ان تمام باتوں کی عادی ہوچکی ہے اور لوگ بھی بہت حد تک باز آگئے ہیں۔
رفیعہ کہتی ہے ابتدا میں لوگوں نے اس کام کو معاشرے سے بغاوت قرار دیا ہے۔ میں جانتی تھی کہ لوگ ایسی باتیں بناتے رہتے ہیں اس لیے اُن کی باتوں کا بُرا ماننے اور اُن پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں ناہمواری اِتنی زیادہ ہے کہ بہت سے بچے کام کرنے پر مجبور ہیں۔ رفیعہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ رفیعہ اور ایسی ہی بہت سی دوسری لڑکیاں اور لڑکے ریاست کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔ معاشی استحکام یقینی بنانا بنیادی طور پر ریاست کی ذمہ داری ہے تاکہ مستقبل کے معمار چھوٹی عمر میں کمانے کے جھنجھٹ میں پھنس کر نہ رہ جائیں۔