ان کے خوبصورت چہرے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ وہ رسالت مآب سیدنا محمدؐ سے اپنے دل کا حال کہہ چکے تھے اور اب جواب کے منتظرتھے۔ وہ قبیلے کے دولت مند افراد میں سے تھے۔ نہایت عقل مند، بہادر، جری اور خوش اخلاق۔ اہل تجارت ان پر بھروسا کرتے تھے۔ اسی نسبت سے وہ امین بھی کہلاتے تھے۔ وہ کسی بھی قبیلے کے سردار کی بیٹی سے شادی کی خواہش کرتے تویہ رشتہ سردار کے لیے خوشی اور فخر کا باعث ہوتا۔ لیکن انہوں نے عالی مرتبت سیدنا محمدؐ کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب ؓ کا انتخاب کیا اور اب آپؐ کے جواب کے منتظر تھے۔ یہ نوجوان ابوالعاص کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔
سیدنا ابوالعاص کی خواہش کے اظہار پر آپؐ نے فرمایا ’’مجھے خوشی ہے کہ تم نے میری بیٹی کارشتہ مانگا۔ مگر اس معاملے میں مجھے اپنی بیٹی کی رضامندی درکار ہے‘‘۔ یہ فرما کر سیدالمرسلینؐ سیدہ زینب ؓ کے پاس تشریف لائے اور ان کی مرضی دریافت کی۔ ابوالعاص کے رشتے کا سن کر سیدہ زینب کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا اور وہ مسکرادیں۔ آپؐ سیدہ زینب کی خوشی جان گئے۔ سیدنا ابوالعاص کے پاس تشریف لائے اور فرمایا ’’مجھے زینب کے ساتھ تمہارا رشتہ منظور ہے‘‘۔
سیدنا ابوالعاص اور سیدہ زینب کی شادی کے بعد محبت کی ایک لازوال داستان کا آغاز ہوا۔ شادی کے بعد سیدنا ابوالعاص سے سیدہ زینب کے ایک بیٹا علی اور ایک بیٹی امامہ پیدا ہوئیں۔ یہ شادی رسالت مآبؐ پر نبوت کے آغاز سے پہلے ہوئی تھی۔ جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی سیدنا ابوالعاص تجارتی سفر پر تھے۔ جب وہ سفر سے لوٹے اور گھر میں داخل ہوئے تو سیدہ زینبؓ نے فرمایا ’’میرے پاس ایک بہت بڑی خبر ہے۔ میں اپنے بابا کا دین اسلام قبول کر چکی ہوں‘‘۔ سیدنا ابوالعاص پوری طرح سمجھ نہ سکے۔ سیدہ زینب ؓنے مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’میرے بابا نبی بنائے گئے ہیں۔ میرے سامنے اپنے بابا کی پوری زندگی ہے۔ وہ بھی امانتوں کے امین، سچے اور صادق ہیں۔ میں انہیں جھٹلا نہیں سکتی۔ اور میں اکیلی نہیں ہوں۔ میری والدہ اور بہنیں بھی اسلام قبول کرچکی ہیں۔ میرے چچا زاد بھائی علی ابن ابی طالب اور آپ کے چچا زاد عثمان بن عفان اورآپ کے دوست ابو بکر بھی اسلام قبول کرچکے ہیں‘‘۔ سیدنا ابوالعاص بولے ’’مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے یہ کہیں کہ میں نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا اور اپنے آباء واجداد کے دین کو ترک کردیا ہے۔ میں تمہارے بابا کا مخالف نہیں ہوں لیکن میں ان کا دین قبول نہیں کرسکتا‘‘۔
سیدنا ابوالعاص نے اسلام تو قبول نہیں کیا لیکن بیوی سے ان کی شدید محبت میں کوئی کمی آئی اور نہ ہی اس حوالے سے انہوں نے سیدہ زینب ؓ کو کوئی تکلیف دی۔ سیدالمرسلینؐ نے جب رسالت کی علی الاعلان دعوت دینا شروع کی تو اہل مکہ نے آپؐ اور مسلمانوں کو تکلیف اور ایذا پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہاں تک کہ کفار سیدنا ابو العاص کے پاس آئے اور ان پر سیدہ زینب کو طلاق دینے پر زور دیا لیکن سیدنا ابوالعاص نے سختی سے اس خیال کو رد کردیا۔ قریش نے مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں محصور کردیا تو سیدنا ابوالعاص نے اس وقت بھی مسلمانوں کا خیال رکھا اور اشیاء خورو نوش اونٹ پر لاد کر گھاٹی کی جانب ہانک دیتے تھے۔
مسلمانوں نے مدینے کی جانب ہجرت شروع کی تو سیدہ زینب اپنے بابا کے پاس تشریف لائیں اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے اپنے شوہر اور بچوں سے بہت محبت ہے کیا آپؐ مجھے ان کے ساتھ رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ آپؐ نے اجازت دے دی۔ ہجرت کے دوسرے برس مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان غزوہ بدر پیش آیا۔ ابوالعاص قریش کی فوج کے ہمراہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لیے پہنچے۔ اس وقت سیدہ زینب کی حالت عجیب تھی۔ روتی جاتیں اور کہتی جاتی تھیں ’’اے اللہ میں اس دن سے ڈرتی ہوں کہ میرے بچے یتیم ہو جائیں یا میں اپنے بابا کو کھودوں‘‘۔ مسلمانوں کو جنگ میں فتح ہوئی تو ابوالعاص بھی گرفتار ہو گئے۔ مدینے میں انہیں عام قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا اور کوئی سہولت نہیں دی گئی۔ جب فیصلہ کیا گیا کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے گا تو یہ خبر سیدہ زینب تک بھی پہنچی کہ قاصدوں کے ذریعہ فدیہ اداکرکے وہ اپنے شوہر کو چھڑوا سکتی ہیں۔
مدینے میں رسالت مآبؐ صحابہ کرام ؓ کے ہمراہ تشریف فرما تھے۔ قاصد آتے اور اپنے عزیز کا فدیہ ادا کرکے چھڑوا لے جاتے۔ ایسے میں ایک شخص عالی مرتبت محمدؐ کے پاس آیا اور کہا ’’میں عمروبن الربیع ہوں۔ میرا بھائی آپ کی قید میں ہے۔ ان کی بیوی کے پاس زر فدیہ کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے فقط اپنا یہ زیور بھیجا ہے‘‘ عمرو کے ہاتھ میں یمنی عقیق کا ایک ہار تھا۔ ہار دیکھ کر رسالت مآبؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا ’’یہ کس کا فدیہ ہے‘‘ عمرو بن الربیع نے کہا ’’یہ میرے بھائی ابوالعاص بن الربیع کا فدیہ ہے‘‘ نہ جانے ماضی کی کتنی ہی یادیں، کتنے ہی مناظر آپؐ کی یادوں میں تازہ ہوگئیں۔ یہ سیدہ خدیجہ ؓ کا ہار تھا جو سیدہ زینب نے شوہر کی محبت پر قربان کردیا تھا۔ صحابہ کرام ؓ نے آپؐ کو رنجیدہ دیکھا تو بے تاب ہو گئے۔ صحابہ کرام ؓ حقیقت سے باخبر ہوئے تو آپؐ کی خوشی کی خاطر بخوشی ہار واپس کرنے اور بغیر فدیہ لیے سیدنا ابوالعاص کو چھوڑنے پر تیار ہو گئے۔ تب رسالت مآبؐ نے ابوالعاص سے تنہائی میں ملاقات کی اور فرمایا ’’اللہ کی طرف سے کافر شوہر اور مسلمان بیوی کے درمیان جدائی کا حکم آگیا ہے اس لیے میری بیٹی کو واپس جاکر مدینے بھیج دینا‘‘۔ ابوالعاص نے آپؐ کی بات کو تسلیم کرلیا۔
ابوالعاص نے اپنے وعدے کی تعمیل کی۔ سیدہ زینب بہ ہزار رنج وغم بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ مدینے منتقل ہوگئیں۔ چھے برس وہ ابوالعاص کا مدینے میں انتظار کرتی رہیں۔ آپ کے کئی رشتے آئے لیکن آپ انکار کرتی رہیں۔ اس امید پر کہ ابوالعاص کبھی نہ کبھی ضرور اسلام قبول کریں گے۔ یہی سب کچھ مکہ میں ابوالعاص کے ساتھ ہوا انہیں کہا گیا کہ تم قریش کی جس عورت سے چاہو اس سے شادی کروا دیں گے۔ مگر ابوالعاص کا ایک ہی جواب ہوتا ’’قریش کی کوئی عورت میری زینب کی برابری نہیں کرسکتی‘‘۔ ہجرت کے چھٹے برس، صلح حدیبیہ سے پانچ ماہ پہلے جب ابوالعاص کے تجارتی قافلے کو لوٹ لیا گیا تو کچھ روایات کے مطابق ابوالعاص خود مدینے پہنچے۔ فجر کا وقت تھا۔ زینب بنت محمدؐ کا گھر پوچھتے جب وہ دروازے پر پہنچے تو سیدہ زینب نے خود دروازہ کھولا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تو حالت غیر ہوگئی۔ سیدہ زینب نے آپ کو پناہ دیتے ہوئے اپنے بابا سے فرمایا ’’ابوالعاص میرا خالہ زاد اور میرے بچوں کا باپ ہے میں ان کو پناہ دیتی ہوں‘‘ صحابہ کرام ؓ کی رضا مندی سے ابوالعاص کا سامان انہیں واپس کردیا گیا۔ ابوالعاص لٹا ہوا سامان لے کر مکے واپس آئے اور تمام لوگوں کا مال انہیں واپس کرنے کے بعد مدینہ واپس تشریف لائے، اسلام قبول کیا اور سیدہ زینب سے رجوع کی اجازت طلب کی۔ رسالت مآبؐ نے سیدنا ابوالعاص کا ہاتھ پکڑا اور سیدہ زینب کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا ’’یہ تمہارا خالہ زاد تم سے رجوع کی اجازت چاہتا ہے‘‘۔ سیدہ زینب کا چہرہ سرخ ہو گیا وہ اپنے محبوب شوہر سے چھے برسوں کے بعد ملنے پر مسکرا اٹھیں۔ ایک برس بعد سیدہ زینب انتقال فرما گئیں۔ ان کے انتقال کے بعد سیدنا ابوالعاص غم سے اکثر روتے رہتے اور فرماتے ’’اے اللہ کے رسولؐ! اللہ کی قسم میں زینب کے بغیر دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا‘‘ اور ایک سال کے بعد ہی سیدنا ابوالعاص ؓ بھی انتقال فرماگئے۔