بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کا دور اگرچہ گزر گیا ہے لیکن زندگی کے اکثر مسائل و معاملات میں ہم ابھی تک بلیک اینڈ وہائٹ کے اْصول کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ بے شک یہ صورت حال بلیک اینڈ وہائٹ فلموں کے اثرات کا نتیجہ نہیں، لیکن اس سے عملی صورت حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا مگر یہاں سوال یہ ہے کہ بلیک اینڈ وہائٹ اْصول سے مراد کیا ہے؟
دیکھیے! آسان اْردو میں بلیک اینڈ وہائٹ کے اْصول کا آسان ترجمہ یہ ہے کہ ہم اپنے اکثر مسائل و معاملات کو سیدھا سادا سمجھتے ہیں اور چونکہ ایسا ہے، اس لیے ہم مسائل و معاملات کا حل بھی سیدھا سادا تلاش کرتے ہیں، اس روش سے اور تو کچھ نہیں ہوتا البتہ اتنا نقصان ضرور ہوتا ہے کہ ہم نہ اپنے مسائل کو سمجھ پاتے ہیں اور نہ ان کا تجویز کردہ حل ہمارے کام آتا ہے۔
خیر سے ان دنوں ملک میں بدعنوانیوں کے چرچے ہیں۔ بڑی بدعنوانیوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی بد عنوانیوں اور ان کے محرکات پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے اخبارات میں کالم پر کالم شائع ہو رہے ہیں۔ ان کالموں میں کوئی سوال اٹھا رہا ہے کہ سپاہی رشوت کیوں لیتا ہے؟ سوال اْٹھانے والا پھر خود ہی اس سوال کا جواب بھی دے رہا ہے کہ سپاہی اس لیے رشوت لیتا ہے کہ اس کی تنخواہ تیس چالیس ہزار روپے کے درمیان ہے۔ کوئی پوچھ رہا ہے کہ صاحب! بیورو کریٹ کیوں مال حرام کماتے ہیں؟ اس سوال کا ریڈی میڈ جواب یہ ہے کہ ان کی تنخواہیں کم ہیں۔ ایک بھلے مانس نے بحث کو پھیلانے کی نیت سے سوال اٹھایا ہے کہ صاحب! اساتذہ پڑھانے میں کیوں دلچسپی نہیں لیتے؟ اس سوال کا جواب بھی یہ ہے کہ صاحب! اساتذہ کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو رشوت اور بد عنوانی کے خاتمے کا بہترین حل یہ ہے کہ تنخواہیں بڑھادی جائیں۔ ظاہر ہے کہ مسئلے پر غور ہوتا ہے اور اس کا حل تلاش کیا جاتا ہے تو پھر اِدھر اُدھر بھی دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس غیر اعلانیہ بحث میں شریک افراد نے امریکا، یورپ اور جاپان کی مثالیں بھی دی ہیں جہاں بقول ان کے سپاہی، بیوروکریٹ اور استاد کی تنخواہ اتنی ہوتی ہے کہ یہ لوگ بدعنوانی کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس تناظر میں بحث میں شریک افراد نے ہمارے حکمرانوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تنخواہوں کے ڈھانچے پر نظر ثانی کریں اور پھر دیکھیں کہ یہ بد عنوان معاشرہ کیسے ایماندار اور فرض شناس معاشرے میں تبدیل ہوتا ہے۔ ہر چند کہ ہم نہ سپاہی ہیں، نہ بیورو کریٹ اور نہ استاد لیکن اس کے باوجود ہم اس تجویز کی تائید کرتے ہیں۔ تائید مزید کے لیے ہم اور کچھ نہیں تو برادر عزیز یحییٰ بن زکریا صدیقی کا ہاتھ اْٹھوا دیں گے لیکن یحییٰ بھائی کو تکلیف دینے سے پہلے ہم یہ سوال ضرور کریں گے کہ پھر کیا ہو گا؟
یہ سوال کئی وجوہ سے اہم ہے، اس میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ ہمارے یہاں استاد اور سپاہی کی تنخواہ شرمناک حد تک کم ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان طبقوں کی تنخواہیں تو 40 سال پہلے بھی بہت یا کافی نہیں تھیں۔ لیکن اس وقت اساتذہ سے یہ شکایت نہیں کی جاتی تھی کہ وہ پڑھاتے نہیں اور اس وقت پولیس بھی بدعنوانی کی علامت نہیں تھی۔ آخر ایسا کیوں تھا؟ اس سوال کا یہ جواب اطمینان بخش نہیں کہ اس وقت ان طبقوں کی آمدنی اور گرانی میں زیادہ تفاوت نہیں تھا۔ ایک سوال یہ ہے کہ آج بھی جو اساتذہ محنت اور ایمانداری سے پڑھاتے ہیں اور جو سپاہی رشوت نہیں لیتا، اس کے رویے کی توجیہ مذکورہ بحث اور دلائل کے تناظر میں کیا ہے؟ ممکن ہے بیوروکریٹ کا آج لاکھ، ڈیڑھ لاکھ یا تین لاکھ روپے میں گزارہ نہ ہوتا ہو، لیکن 25 سال پہلے تین چار ہزار میں ان کا گزارہ کیسے ہو جاتا تھا؟ اس سلسلے میں جاپان کی مثال اس اعتبار سے ایک ’’بہترین‘‘ مثال ہے کہ وہاں گزشتہ دس پندرہ سال میں کم از کم چار وزرائے اعظم بدعنوانی کے سنگین الزامات کے تحت اپنے عہدے چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں، رہے یورپی ممالک تو بے شک وہاں کی صورت حال کا ہماری حالت سے کوئی تقابل ہی نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اور بات کہ وہاں معاشرتی دباؤ مختلف وجوہ کی بنا پر اتنا سخت ہو گیا کہ اسکینڈل سامنے آنے کے بعد کسی کا اپنے عہدے پر کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب تو ہم اقتصادی عنصر کو بدعنوانی کے سلسلے میں بنیادی اہمیت دیتے ہیں لیکن دوسری جانب یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں بدعنوانی اور رشوت کلچر پیدا ہو گیا ہے۔ فی زمانہ کلچر ایک ایسا لفظ بن گیا ہے جس کا اکثر کوئی مفہوم نہیں ہوتا لیکن رشوت اور بد عنوانی کے سلسلے میں لفظ کلچر کا ایک مفہوم ہے اور وہ یہ کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رشوت اور بدعنوانی ہمارے یہاں کلچر بن گئی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ بدعنوانی کا عمل ’’مجبوری اور ضرورت‘‘ کے مرحلے سے گزر کر نفسیاتی ضرورت کے دائرے میں داخل ہو گیا ہے، اور جب یہ مرحلہ آجاتا ہے تو پھر مسئلہ سیدھا سادا یا بلیک اینڈ وہائٹ نہیں رہتا بلکہ بڑا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں ہمارے یہاں اقتصادی مسائل مختلف وجوہ کی بنا پر بہت سنگین ہو گئے ہیں۔ گرانی کے طوفانوں نے محاورتاً نہیں حقیقتاً کروڑوں لوگوں کی زندگی کو عذاب بنادیا ہے، لیکن کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ اس عرصے میں ہمارا تصور زندگی ہولناک حد تک بدل گیا ہے۔ ہم اقدار کی تبدیلی کے کربناک مراحل سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے مقاصد ِ حیات میں بہت بڑا تغیر واقع ہو چکا ہے۔ ہم نے اپنی ضروریات کے دائرے کو بہت پھیلا لیا ہے۔ ہم اپنے حال اور مستقبل پر اعتماد کھو چکے ہیں۔ ہماری کوئی سمت سفر ہی نہیں ہے۔ ہماری اتھلی مذہبیت دنیا کو، اور پست دنیا پرستی مذہبیت کو خراب کر رہی ہے۔ کیا ان حقائق کا بد عنوانی کے کلچر سے کوئی تعلق نہیں اور کیا ہم صرف تنخواہوں میں اضافے کے ذریعے بد عنوانی کے خلاف جنگ جیت سکتے ہیں؟
ٹامس مان نے کہا تھا کہ بیسویں صدی میں انسانی تقدیر سیاسی اصطلاحوں میں لکھی جائے گی۔ لیکن ہم اکیسویں صدی کے آغاز سے بہت پہلے اپنی تقدیر کو اقتصادی اصطلاحوں میں لکھنے میں طاق ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اب ہر مسئلہ معاشی اور اقتصادی ہے اور اس کا حل بھی معاشی اور اقتصادی۔ یہ نری جہالت ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل کے انسان کی مستند جہالت۔