سقوط ڈھاکا کا غم… سرکاری سطح پر کیوں نہیں؟

137

(آخری حصہ)

غدار شیخ مجیب الرحمن کی قاتل بیٹی حسینہ واجد جب بنگلا دیش کی وزیراعظم بنی تو پھر سے جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ قید و بند کے دروازے اور تختہ دار کے رسے کھول دیے گئے۔ سابق امیر جماعت اسلامی مشرقی پاکستان پروفیسر غلام اعظم اور مولانا عباس علی خان جیسے عظیم رہنما جیل ہی میں وفات پا گئے جبکہ امیر جماعت اسلامی بنگلا دیش مطیع الرحمن نظامی صاحب سمیت جماعت اسلامی کے کتنے ہی رہنمائوں کو بڑھاپے کی حالت میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ یہ تمام سزائیں سقوط ڈھاکا کے 45 سال بعد یہ کہہ کر دی جارہی تھیں کہ 1971ء میں آپ نے پاکستان اور پاک فوج کا ساتھ کیوں دیا۔ مگر حیرت اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس قدر مشکل وقت کہ جب زندگی دائو پر لگ گئی ہو تب بھی امیر جماعت اسلامی بنگلادیش سمیت سب رہنما یہ کہتے رہے کہ 1971ء میں ہم نے پاکستان سے وفادار رہنے اور پاک فوج کا ساتھ دینے کا جو فیصلہ کیا تھا وہ ہر حوالے سے بالکل ٹھیک تھا۔ جماعت اسلامی کے کسی رہنما نے جیل میں دم توڑنے یا پھانسی چڑھتے وقت اسلام، پاکستان اور فوج سے اپنی محبت اور وفاداری سے لاتعلقی کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی بنگلادیش حکومت سے معافی مانگی۔ امیر جماعت اسلامی بنگلادیش جناب مطیع الرحمن شہید کا یہ ایمان افروز جملہ ہمیشہ یاد رہے گا کہ جب آپ کو پھانسی دینے کے لیے بلیک وارنٹ پڑھ کر سنایا گیا تو اِس کے بعد جیلر نے آپ سے کہا کہ آپ چاہیں تو صدر بنگلادیش سے رحم کی اپیل کرسکتے ہیں اِس پر نظامی صاحب نے فی الفور فرمایا ’’میرے لیے اللہ کا رحم ہی کافی ہے‘‘۔

حیرت ہے کہ پاکستان اور پاکستانی فوج کے ان وفاداروں اور مخلص ساتھیوں کی شہادت پر ’’ISPR‘‘ نے کبھی کوئی خراج عقیدت پیش نہیں کیا۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں مشرقی پاکستان کے شہدا کے لیے کبھی قرآن خوانی نہیں کی گئی۔ آج بنگلادیش میں بھارت مردہ باد اور پاکستان زندہ باد کے جو نعرے گونج رہے ہیں وہ انہی کارکنوں اور رہنمائوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جن کا ہم اوپر ذکر کرچکے ہیں۔ 9 مئی کے واقعات پر تو بڑا غصہ اور انتقام ہے۔ ملزمان کو زندہ چبا جانے کے لیے دانت پیسے جارہے ہیں۔ بلاشبہ 9 مئی کے واقعات بھی افسوسناک اور قابل مذمت ہیں تاہم پاک فوج کے جو وفادار ساتھی ڈھاکا کے پلٹن میدان سے لے کر ڈھاکا یونیورسٹی اور ڈھاکا جیل تک انتہائی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے اُن کا بھی کبھی کسی نے کوئی ذکر کیا۔ اُن کے غم کو تازہ کرنے اور قربانیوں کو یاد کرنے کے لیے بھی کبھی راولپنڈی یا اسلام آباد میں کوئی تقریب وغیرہ رکھی گئی؟

بہرحال جو لوگ بھی پاکستان اور پاک فوج کے وفادار ہیں انہیں کوئی صلہ، تمغہ یا معاوضہ نہیں چاہیے کیونکہ یہ لوگ بحیثیت مسلمان کے اپنے وطن وفادار ہیں جو کوئی احسان نہیں بلکہ دینی فریضہ ہے کیونکہ ہمارے نزدیک پاکستان ہمارا گھر ہے کہ جہاں پر ہم اور ہماری آئندہ نسلوں کی عزت و آبرو اور آزادی محفوظ رہے گی ان شاء اللہ۔ تاہم ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہماری تاریخ تحریک پاکستان کے شہداء سے لے کر 65ء، 71ء اور کارگل جنگ کے شہداء سمیت مشرقی پاکستان کے شہدا اور شہدا آرمی پبلک اسکول پشاور سے ہوتی ہوئی اُن تمام شہدا تک پھیلی ہوئی ہے کہ جو آج بھی دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کے داخلی اور سرحدی محاذوں پر برسرپیکار اور اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ شہدا کی تاریخ کو ہر سال 16 دسمبر (سقوط ڈھاکا) کو سرکاری سطح پر ترتیب اور تفصیل کے ساتھ یاد کرنا چاہیے کیونکہ تاریخ کے نشیب و فراز میں بہت بڑا سبق ہے جو ہمارے مستقبل کو سنوارنے اور محفوظ بنانے کے لیے اُن غلطیوں اور کارناموں کی نشاندہی کرتا ہے کہ جن سے ہمارا ماضی اور حال وابستہ ہے۔