مجاہد چنا
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم حافظ نعیم الرحمن نے گزشتہ روز لاہور میں اسلامی جمعیت طلبہ کے تحت منعقدہ حقوق طلبہ کنونشن سے خطاب کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کیا کہ ’’یہ پاکستان کو مسجد سمجھ کر حفاظت کرنے والوں کا راستہ روکتی اور لٹیروں کو قوم کے سروں پر سوار کرتی ہے‘‘۔ حافظ صاحب کا یہ گلہ درست اور حقیقت پر مبنی ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لازوال قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان کی محبت میں اور ملک کو دولخت ہونے سے بچانے کے لیے الشمس و البدر نے پاک فوج کے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوکر دشمن کی مکتی باہنی کا مقابلہ کیا۔ اس کی پاداش میں شیخ حسینہ واجد حکومت نے بنگلا دیش میں جماعت اسلامی اور چھاترو شبر پر پابندیوں سمیت ظلم کے پہاڑ توڑ دیے سیکڑوں کارکنوں کو پابند سلاسل اور کئی رہنمائوں مطیع الرحمن نظامی، ملاعبدالقادر، علی قاسم سمیت کئی دیگر معروف رہنماؤں کو پھانسی پر لٹکا دیا اس طرح وطن کی مٹی کی خاطر گمنام شہداء کی بھی بڑی تعداد ہے۔ اس کے بدلے میں ہر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ نے جماعت اسلامی کا راستہ روکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دور نہیں جائیں حالیہ عام انتخابات میں کراچی سمیت ملک بھر میں جماعت اسلامی کی جیتی ہوئی سیٹیں شکست خوردہ جماعتوں کے نمائندوں کو دے دی گئیں۔ کراچی کے میئر کے انتخاب کی ہی مثال لے لیں۔ حلقہ بندیوں کی بندر بانٹ، بدترین دھاندلی اور حکومتی دھونس و غنڈا گردی کے باجود بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ ووٹ لیکر نمبر ون جماعت کا اعزاز حاصل کیا۔ جیتی ہوئی نشستوں کے دوبارہ تھیلے کھول کر ووٹ کم کیے۔ اس کے باوجود پی ٹی آئی کی حمایت سے حافظ نعیم الرحمن میئر کراچی کے مضبوط امیدوار تھے مگر اسٹیبلشمنٹ کی جوڑتوڑ سے تیسرے نمبر پر آنے والی پارٹی کا میئر منتخب کرایا گیا۔ اس کی حالت یہ ہے کہ شہرکے ترقیاتی کام تو اپنی جگہ مگر قبضہ میئر ایوان یعنی سٹی کونسل میں بھی نمائندوں کا سامنا نہیں کر پارہے ہیں۔
عملی طور کراچی کچرا کنڈی، جرائم کی آماج گاہ، قبضہ مافیا اور بدترین ٹریفک جام سمیت بے شمار مسائل کا شکار ہے۔ خود حکومتی اعدادو شمار کے مطابق رواں سال ٹریفک حادثات میں 450 افراد جبکہ دوران ڈکیتی مزاحمت پر 110 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے۔ یہ حادثات و واقعات کی وہ تعداد ہے جو حکومت کے پاس رپورٹ شدہ ہے بغیر رپورٹ ملادیں تو تعداد اور بھی بڑھ جائے گی۔ اسٹیبلشمنٹ شاید اس لیے بھی قابل دیانتدار اور فرض شناس افراد کے بجائے نااہل کرپٹ افراد کو پسند کرتی ہے کہ ان کی دکانداری بھی چلتی رہے اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ بھی خوش رہے۔ ملکی سلامتی کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے علاوہ ڈیڑھ سو سے زائد جماعت اسلامی کے ارکان پارلیمنٹ رہے جن کی کارکردگی بھی نمایاں اور ان پر کسی قسم کی کوئی کرپشن کا الزام بھی نہیں ہے یہاں تک کہ کئی سال تک سینیٹر رہنے والے سابق امیر جماعت اسلامی مرحوم قاضی حسین احمد اور مایہ ناز ماہر معیشت پروفیسر خورشید احمد نے تو جائز تنخواہ، پلاٹ اور کسی قسم کی مراعات لینے سے بھی انکار کردیا۔ سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی اور سابق ناظم سٹی نعمت اللہ خان، خیبر پختون خوا کے سابق وزیرخزانہ و سینئر وزیر سراج الحق کا کردار و کام دیانت و امانت پوری قوم کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی نے ملک و قوم کو ایسے ایسے انمول ہیرے دیے ہیں پھر بھی ایسی جماعت کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کا راستہ روک کر کرپٹ و لٹیروں کو مسلط کرنے والے اسٹیبلشمنٹ کے رویہ پر افسوس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے لیے نہیں کسی بیرونی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم آپ سے بھیک نہیں مانگتے کہ ہمیں مصنوعی طریقے سے جتوائیں مگر جب عوام اپنی مرضی اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے دیانتدار و قابل قیادت کو منتخب کرتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ ہمارا راستہ نہ روکے یہ ملک و قوم کے ساتھ دشمنی ہے۔
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات