پاکستان کی موجودہ سیاسی و عدالتی صورتِ حال آئینہ ہے اِس تلخ حقیقت کا کہ جب ریاستی ادارے اپنی آئینی ذمے داریوں سے ہٹ کر سیاسی انجینئرنگ میں مصروف ہوجائیں تو عوام کا اُن پر اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے حالیہ ریمارکس نے ملک کے ان اہم اور کلیدی ایشوزکو ایک بار پھر بے نقاب کیا ہے جنہوں نے ریاست کی بنیادوں کو کمزور کردیا ہے اور ہم آج تک وطنِ عزیز میں ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کررہے ہیں اور ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ اداروں کی ناکامی اور عوام کا اُن پر سے اعتماد اٹھنا معمولی بات نہیں ہے، جس پر اب تواتر سے بات ہورہی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ’’اگر آئین پر عمل ہوتا تو یہ حالات نہ ہوتے‘‘۔ ان خیالات کا صاف مطلب یہ ہے کہ وطنِ عزیز کے ریاستی ادارے اپنے اصل فرائض چھوڑکر سیاسی معاملات میں مداخلت کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کا ان اداروں پر اعتماد ختم ہورہا ہے۔ گوکہ یہ بات اب ایک بچہ بھی جانتا ہے لیکن عدالتِ عظمیٰ سے یہ اظہار اس کی معنویت کو گہرا کردیتا ہے۔ اسی سماعت میں جسٹس مندوخیل کا کہنا تھاکہ ’’تین وزرائے اعظم مارے گئے لیکن کسی کو انصاف نہ ملا، جب وزیراعظم کا یہ حال ہو تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا؟‘‘۔ قائداعظم جیسے انصاف پسند بانیِ ملک کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ کیا انہوں نے اپنی زندگی کے 42 سال اس لیے جدوجہد کی؟ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران اتنا واضح مؤقف رکھتے تھے کہ ایک موقع پر مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں آپ نے فرمایا: ’’پاکستان میں عوام کی حکومت ہوگی۔ میں ان جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کرنا چاہوں گا جنہیں ایک فاسد اور ظالمانہ نظام نے اتنا بے حس اور خودغرض بنادیا ہے کہ کسی دلیل یا فہمائش کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عوام کا استحصال ان کے خون میں سرایت کرچکا ہے اور وہ اسلام کی تعلیمات کو بھلا بیٹھے ہیں۔ لالچ کے باعث یہ لوگ عوام کی بہتری کے بجائے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ملتی ہے، کیا اسی کا نام تہذیب ہے؟ کیا پاکستان اسی لیے بنایا جارہا ہے کہ لاکھوں لوگوں کا استحصال جاری رہے؟ اگر یہی پاکستان کا تصور ہے تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہیے‘‘۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہی اندھیرا آج ہمارے ملک کے تمام اہم اداروں کی حالت بیان کرتا ہے، جہاں انصاف کی روشنی عوام تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ناانصافی اور جبر نے گہرے زخم دیے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اگر اُس وقت عوام کو انصاف فراہم کیا جاتا، ان کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا تو شاید یہ سانحہ پیش نہ آتا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران طبقے نے ظلم اور جبر کو اپنا ہتھیار بنایا، جس کا خمیازہ آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ ہماری زیادہ تر سیاسی جماعتیں ’’دولے شاہ کے چوہے‘‘ بن کر اپنی حیثیت کھو بیٹھی ہیں۔ سیاست دانوں کی اکثریت اپنے مفادات کے تحت اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچتی رہی ہے۔ عمران خان، نوازشریف، اور دیگر راہنما اسٹیبلشمنٹ کے پروجیکٹس یا اُن کے لیے خدمات انجام دینے والے کردار بنے رہے ہیں۔ ان کی سیاست کا مقصد عوام کی خدمت کے بجائے طاقت کے کھیل میں اپنی جگہ بنانا ہے۔ یہی بدنصیبی رہی ہے کہ جعلی سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ملی بھگت سے آج تک ریاست کی ترجیحات اور اداروں کا کردار ہی واضح نہیں ہوسکا ہے۔ ریاستی ادارے، جن کا مقصد عوام کی خدمت اور آئین کا تحفظ ہے، آج حکومتیں بنانے اور گرانے میں مصروف ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے درست کہا کہ ’’ریاست حکومت گرانے اور لانے میں مصروف ہے اور سارے ادارے سیاسی مخالفین کے پیچھے پڑے ہیں‘‘۔ ایسے میں عوام کا اعتماد کیسے بحال ہو سکتا ہے؟ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جب عوام اداروں پر اعتماد کھو دیں تو ریاست کے نظام کا شیرازہ بکھرنے لگتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کے ان الفاظ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ’’لوگ چاہتے ہیں کہ سارے کام عدالتِ عظمیٰ کرے کیونکہ انہیں دیگر اداروں پر یقین نہیں رہا‘‘۔ لیکن بدقسمتی اس ملک کی یہ ہے کہ اب لوگوں کو عدلیہ پر بھی اعتماد نہیں رہا ہے۔ یہ صورتِ حال نہ صرف عدلیہ بلکہ دیگر اداروں کی بھی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب عدلیہ کے اعتبار و احترام پر انگلیاں اٹھنے میں شدت موجود ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عوام کا اداروں پر اعتماد ریاست کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جہاں انصاف کے اصولوں پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے، وہاں عوامی اعتماد نے ریاست کو مستحکم بنایا ہے۔ دوسری طرف تاریخ میں فرعون، یزید اور شام، بنگلادیش اور دیگر ملکوں کے ظالم حکمرانوں کی مثالیں موجود ہیں، جو ناانصافی کی بنیاد پر حکومت کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن ان کی حکومتیں زمیں بوس ہوگئیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے؟ اس کا جواب ایک ہی ہے کہ پاکستان میں حکمرانی کے مسائل سے لے کر اداروں پر اعتماد کے مسئلے کا حل صرف انصاف، آئین کی بالادستی اور اداروں کے غیر جانب دار کردار میں مضمر ہے۔ اگر ریاستی ادارے اپنے اصل فرائض پر واپس آجائیں اور حکمراں عوام کو انصاف فراہم کریں، تو عوامی اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔ اس کے بغیر نہ صرف ریاست کمزور ہوگی بلکہ اس کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکمران طبقہ اور ادارے عوام کے اعتماد کو بحال کریں، ورنہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جبر، ناانصافی اور ظلم ریاستوں کو تباہی کی طرف لے جاتے ہیں۔ عوامی اعتماد بحال کیے بغیر کسی ریاست کا چلنا ممکن نہیں۔