ڈیجیٹل دنیا میں حافظے کی موت

156

فیصل آباد لٹریری فیسٹیول میں افتخار عارف کی صدارت میں کہی گئی یہ بات کہ ’’ٹیکنالوجی کی ترقی سے حافظے کی موت واقع ہوچکی ہے‘‘ سب سے اہم بات ہے، اور آج کے معاشرتی اور ذہنی مسائل کی جڑ ہے۔ ٹیکنالوجی کے فوائد سے انکار ممکن نہیں، لیکن اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہماری یادداشت، تخلیقی صلاحیتوں اور ذہنی صحت پر منفی اثرات ڈال رہا ہے۔ تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ کاغذ پر لکھنے اور پڑھنے کا عمل دماغ کو متحرک اور یادداشت کو مستحکم کرتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات کے مطابق ڈیجیٹل ٹولز کا زیادہ انحصار دماغ کے ایک محدود حصے کو فعال رکھتا ہے، جب کہ تخلیقی سوچ اور یادداشت کے لیے ضروری دماغی حصے غیر فعال ہوتے جارہے ہیں۔ اس طرح کی ایک تحقیق اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغ کو زیادہ متحرک کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق جو طلبہ ہاتھ سے نوٹس لیتے ہیں، وہ زیادہ مؤثر طریقے سے سیکھتے ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ڈیجیٹل پڑھائی سطحی رہ جاتی ہے۔ ہاتھ سے لکھنا اور کتاب کا لمس تخلیقی اور ذہنی سکون فراہم کرتا ہے، جو ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اب مغربی ممالک میں قلم اور کاغذ کے ذریعے لکھنے پر زور دیا جا رہا ہے۔ اسکولوں میں طلبہ کو خطاطی اور تخلیقی تحریر کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ ان کی ذہنی نشوونما بہتر ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال کو محدود کرکے کتابوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے اور ہاتھ سے لکھنے کی عادت کو فروغ دیا جائے۔