امریکا و یورپین ممالک میں امیگریشن قوانین میں سختیوں کا امکان

125
لیسبوس: تارکین وطن کو کیمپ سے مرکزی یونان منتقل کیا جا رہا ہے

امریکا و یورپین ممالک میں امیگریشن قوانین میں سختیوں کا امکان
واشنگٹن: گزشتہ دنوں بین الاقوامی میڈیا میںامریکا و یورپین ممالک جن میں جرمن بھی شامل ہے جہاں امیگریشن قوانین میں سختیوں کے امکان سے متعلق ایک مضمون شائع ہوا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک جس میں ویٹو پاور کی حیثیت رکھنے والے ملک بھی شامل ہیں جہاں نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں ہر سال مستقل اضافہ ہونا مقامی لوگوں کے لیے تشویش کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ مستقبل میں اس صورتحال میں کمی ہو گی یا نہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
اس حوالے سے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق دور میں اس پر بندش کے لیے دیوار یا باڑ لگا نے کے بیان اور پھر اس میں شامل جان لیوا کوورنا وائرس کی بین الاقوامی وبا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سفری پابندیاں اور بریگزٹ معاہدہ تک کے عوامل میں منسلک رہیں، جس نے برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین لوگوں کی آزادانہ آمد و رفت کے خاتمے میںاہم کردار ادا کیا۔
اس حوالے سے مقامی میڈیا نے بھی آنے والے نئے سال2025ءکے شروع ہی میں دنیا کے2 بڑے ممالک میں امیگریشن قوانین میں پیدا ہونے والی سختیوں کے روشن امکانات کو واضح کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ جنوری2025ءمیں بطور صدر امریکا میںاپنی حکمرانی کا آغاز کریں گے جبکہ جرمنی میں اس سے اگلے ماہ فروری میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں جوکہ یہ انتخابات امیگریشن قوانین میں سخت پالیسیوں کی حامی جماعتوں کو کامیابی سے ہمکنار دلا سکتے ہیں۔
یہ بات بھی علم میں رہے کہ گزشتہ 10برسوں نے ہجرت کے متحمل افراد کے لیے سنگین رکاوٹیں پیداکی ہیں۔اس حوالے سے ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ امسال ڈونلڈ ٹر مپ کی اپنی انتخابی مہم میں ایک غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا وعدہ بھی شامل رہا ہے۔اس حوالے سے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ مذکورہ معاملہ امریکا کے لیے نہایت سنگین ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے اس دیرینہ منصوبے کے لیے امریکی فوج کا استعمال سمیت ایک نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا منصوبہ مکمل ہونے کو ہے۔ اس سلسلے میں ٹرمپ کے ممکنہنائب صدر جے ڈی وینس نے ملک بدری کو10 لاکھ افراد سے شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ جس کی لاگت کوئی سیکڑوں ارب ڈالرکی تک پہنچ جائے گی۔
واضح رہے کہ یہ وہی اقدامات ہیں جیسے انہوں نے اپنی سابق حکمرانی میں ’ڈائیورسٹی ویزا لاٹری‘جیتنے والوں کے ساتھ کیا تھا۔