بھارت نے بنگلا دیش کے کی عبوری حکومت کے ایک معاونِ خصوصی کی طرف سے فیس بک پر اپ لوڈ کی گئی پوسٹ پر شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے بنگلا دیش کی عبوری حکومت سے احتجاج کیا ہے۔
بنگلا دیشی عبوری حکومت کے سربراہ (چیف ایڈوائزر) ڈاکٹر محمد یونس کے معاونِ خصوصی محفوظ عالم نے فیس بک کی ایک پوسٹ میں (جو اب ڈیلیٹ کی جاچکی ہے) کہا تھا کہ بنگلا دیش میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ سب بھارت کا کیا دھرا ہے اور وہ حالات بھی بھارت ہی کے پیدا کردہ تھے جن کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت ٹھکانے لگائی گئی۔
محفوظ عالم نے لکھا تھا کہ بھارت نے جو کچھ بھی بنگلا دیش کے ساتھ کیا تھا اُس کا اُسے اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ پوسٹ کے مطابق بنگلا دیش میں ایک زمانے سے بھارت کی مداخلت جاری تھی اور اس کے نتیجے میں لاوا پک رہا تھا۔ طلبہ تحریک کی شکل میں آتش فشاں پھٹ پڑا اور لاوا بہہ نکلا۔
بھارت نے کہا ہے کہ جو کچھ بھی بنگلا دیش میں ہوا ہے وہ کسی بھی بیرونی قوت کا پیدا کردہ نہیں بلکہ بنگلا دیش کے اپنے حالات کا منطقی نتیجہ ہے اس لیے بھارت یا کسی اور کو موردِ الزام ٹھہرانے کے بجائے بنگلا دیش کے حکمراں اپنے گریبان میں جھانکیں اور معاملات درست کرنے کی کوشش کریں۔
بنگلا دیش میں یہ تاثر عام ہے کہ شیخ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں بھارت کو غیر معمولی ترجیح کا درجہ حاصل تھا اور کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ بنگلا دیش کوئی آزاد ریاست نہیں بلکہ بھارت کا صوبہ ہے۔ شیخ حسینہ واجد کی حکومت میں بنگلا دیشی ہندوؤں کے بھی مزے تھے۔ انہیں جی بھرکے نوازا گیا۔ مشرقی پاکستان سے الگ کرنے اور بنگلا دیش کی شکل دینے میں بھارت نے عوامی لیگ کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے بنگلا دیش کو اب تک بھارت کے آغوش میں رکھا جاتا رہا ہے۔ اب بنگلا دیش کے عوام جاگ چکے ہیں اور بھارت کا عمل دخل برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔