صیدنایا یا تہاڑ: انسانیت کا ماتم

169

شام میں بشار الاسد کی حکومت برسوں سے ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا مرکز بن چکی تھی ان مظالم کے خلاف عوامی رد عمل کو کچلنے کے لیے جابر حاکم نے طاقت کا ایسا بے دریغ استعمال کیا ہے کہ انسانیت شرما جاتی ہے بشارالاسد کی حکومت نہتے شہریوں، خاص طور پر خواتین اور بچوں کو نشانہ بناتی رہی اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی علاقوں پر بمباری عام رہی، اس کی حکومت نے کئی بار کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا، خاص طور پر 2013 کے غوطہ اور 2018 کے دوما حملوں میں سیکڑوں افراد جاں بحق اور ہزاروں ایسے متاثر ہوئے کہ تا حیات معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غاصب حکومتی فورسز نے لاکھوں افراد کو گرفتار کیا جن میں سے لاتعداد جبری گمشدگی کے شکار ہوئے یا زیر حراست تشدد کے نتیجے میں ہلاک کردیے گئے۔حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں 60 لاکھ سے زائد شامی شہری اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے اور دنیا کے مختلف ممالک میں پناہ لیے بے وطنی کی شب و روز گزارنے پر مجبور کردیے گئے اس ہجرت میں بھی ان گنت لوگ زندگی کی بازی تک ہار گئے سمندر کنارے شامی معصوم بچے کے اوندھی لاش نے دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا جنہیں دورانِ ہجرت کم سنی میں ہی اگلے جہاں کے سپرد کردیا گیا ہے۔

بشار الاسد کی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف سیاسی مخالفین اور اپوزیشن پر بے رحم کارروائیاں کی گئیں اور انہیں دہشت گرد قرار دے کر یا قتل کیا گیا یا عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا بین الاقوامی برادری، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے بشارالاسد کی حکومت کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے مگر بشارالاسد نے عالمی دباؤ کے باوجود شامیوں پر انسانیت سوز مظالم جاری رکھے بشارالاسد کی حاکمیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ان کے مظالم کی لرزہ خیز داستانوں کا پردہ جب چاک ہوا اور ان کے انسانیت سوز مظالم منظر عام پر آئے تو آج کے مہذب دنیا پر سکتہ طاری ہوگیا ہے۔

ذرا سا غور کیا جائے تو ہندوستان نے نہتے کشمیریوں کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھتے ہوئے ہندوستان کے بدنام زمانہ تہاڑ، ہیرا نگر، کوٹ بلوال اور دیگر ریاستی جیلوں میں انسانی ذبح خانوں کو آباد کیا ہوا ہے۔ کشمیر، روئے زمین پر جنت کہلانے والا خطہ، دہائیوں سے مظلومیت، جبر، اور ظلم کی داستان بن چکا ہے یہ وہ سر زمین ہے جس پر بھارت نے 1947 سے غیر قانونی قبضہ کر رکھا ہے جہاں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں، نسل کشی، اور کشمیری عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں بغیر کسی روک تھام کے جاری ہیں مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کی حقیقت سے تو دنیا واقف ہے لیکن ان پر ڈھائے گئے ماورائے عقل بھارتی مظالم کے مختلف پہلو بشارالاسد کے قائم کردہ عقوبت خانوں کی مثل تا حال پوشیدہ ہیں لیکن اقوامِ عالم نے بھارت کو کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے گئے انسانیت سوز اقدامات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی ہے۔ کشمیری عوام کی حالتِ زار شامی عوام کے مظالم سے کم نہیں ہیں جہاں دنیا کو مظالم کا علم اس وقت ہوا جب برسوں بعد بشارالاسد کی جبر و استبداد کی داستانیں منظر عام پر آئیں۔ کیا اقوامِ عالم کو کشمیریوں کی ہندوستان کے ہاتھوں نسل کشی کا اسی طرح انتظار ہے یا وہ انہیں ہندوستان کے پنجہ استبداد اور ان کے قائم کردہ مقتل سے نجات دلانے کے لیے فوری عملی اقدامات اٹھائیں گے؟

بھارت نے کشمیر کو غیر قانونی قبضے میں رکھنے کے لیے ہر ممکنہ جبر و استبداد کا سہارا لیا ہے، کشمیری عوام کو سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی آزادی سے محروم کرکے ان پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں وہ انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہیں کشمیر میں ہزاروں افراد کو بھارتی فورسز نے اغوا کرکے لاپتا کردیا ہے ان افراد کے اہل خانہ دہائیوں سے شامیوں کی طرح اپنے پیاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ ان کے عزیز زندہ ہیں یا مار دیے گئے ہیں جن میں ہزاروں ہاف وڈوز خواتین قابلِ ترس ہیں۔ ہندوستان کے اس ظلم نے کشمیری عوام کو ایک مستقل عذاب میں مبتلا کیے رکھا ہے کشمیریوں کو بنا کسی جرم کے مختلف حیلے بہانوں سے گرفتار کرکے قتل کیا جاتا ہے اور ان کی چشم و چراغ کی لاشیں ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے اجتماعی قبروں اور گمنام قبرستانوں میں سپرد خاک کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی حکومت اپنے مظالم کو دنیا سے چھپانے میں مشغول ہے جس کو شام کے ظالم و جابر حاکم کے نقشِ قدم پر چلنے کی کڑی سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ بھارتی افواج نے کشمیری خواتین کو ظلم و جبر کا خصوصی نشانہ بنایا ہے۔ خواتین کی عزت و آبرو پامال کرکے کشمیری عوام کی روح کو زخمی کرنا افواجِ ہند کا روز کا معمول بن چکا ہے کنن پوش پورہ جیسے واقعات انسانی تاریخ کے سیاہ ترین باب ہیں جو بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں بھارتی افواج نے مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے پیلٹ گنز استعمال کرکے عالمی قوانین کی دھجیاں تک چیر دی ہیں پیلٹ گنز کے بے دریغ استعمال نے ہزاروں کشمیریوں کو زخمی اور سیکڑوں کو بینائی سے محروم کردیا ان پیلٹ گنز سے معصوم بچے اور خواتین بھی شدید زخمی ہوئے اور انہیں تا حیات معذوری کی زندگی کے جہنم میں دھکیل دیا گیا ہے جو ہندوستان کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاسی تو کرتے ہیں ولیکن عالمی ضمیر متوجہ نمی شود! 5 اگست 2019 کو بھارت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا اور پورے خطے کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کردیا انٹرنیٹ اور تمام مواصلاتی ذرائع کی بندش، خوراک و ادویات کی قلت اور لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی میں کشمیریوں کو محصور کردیا گیا ہے یہ محاصرہ تاریخ کے طویل ترین محاصروں میں سے ایک ہے اس دوران بھارتی افواج کشمیری عوام کے ساتھ کیا برتاؤ کرتی رہی شاید دنیا کبھی جان بھی نہیں پائے گی کیونکہ ہندوستان غیر جانبدار تنظیموں کو تحقیقات کے لیے کشمیر جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے۔

کشمیر کی جدوجہد صرف بھارتی قبضے سے آزادی کے لیے نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے ہے کشمیری عوام اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے تحت اپنا حق خود ارادیت مانگ رہے ہیں وہ کوئی بھیک نہیں مانگ رہے ہیں بلکہ دیگر اقوام کی طرح قانونی اور جائز حق طلب کررہے ہیں حصولِ حق کے اس جرم میں ہزاروں کشمیری خاندان اپنے لاپتا پیاروں کی واپسی کے منتظر ہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق، جبری گمشدگیاں، ماورائے عدالت قتل و غارت، خواتین کی بے حرمتی اور زمین و جائداد کی ضبطی بھارت کے ریاستی ظلم و جبر کا واضح ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ 1989 سے منظر عام پر آنے والی اب تک کے رپورٹس کے مطابق ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، 8 ہزار ماورائے عدالت قتل کردیے گئے، سوا لاکھ بچے یتیم بنا دیے گئے، 25 ہزار خواتیں بیوہ ہوچکی ہیں، 12 ہزار خواتین کو اجتماعی عصمت داری کا نشانہ بنایا گیا، 2 لاکھ کشمیریوں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈال دیا گیا، سوا لاکھ گھروں کو مسمار کردیا گیا، ہزاروں ایکڑ زمین و جائداد زبردستی ضبط کردی گئیں۔ کشمیری عوام کی حالتِ زار پر عالمی برادری خاموش اور اقوامِ متحدہ کشمیری عوام کی مدد کے بجائے بھارتی مظالم پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ (1) بھارتی مظالم کو بے نقاب کرنا، دنیا کے سامنے بھارت کے مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔ (2) بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتوں کو عملی اقدامات اٹھانے چاہیے۔ (3) کشمیری عوام کی جدوجہد کو اخلاقی، سفارتی، اور سیاسی حمایت فراہم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

کشمیر کی سر زمین پر بھارتی مظالم کی داستان تاریخ کے سیاہ ترین بابوں میں سے ایک ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا اپنی بے حسی ختم کرے اور کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دے۔ کشمیری عوام کی قربانیوں کو رائیگاں جانے دینا نہ صرف انسانی حقوق کی ناکامی ہوگی بلکہ یہ عالمی انصاف کے اصولوں پر بھی سوالیہ نشان ہوگا۔ شام کے بدنام زمانہ صیدنایا جیل کی طرح ہندوستان کے بدنام زمانہ تہاڑ، ہیرا نگر اور ہندوستان کی دیگر مختلف ریاستوں کے عقوبت خانوں میں بے یارو مددگار کشمیریوں کی ہزاروں داستانیں بھارتی مظالم کی گواہی دیتی ہیں اگر انہیں روکا نہ گیا تو یہی سمجھا جائے کہ دنیا شامیوں کے ساتھ بشارالاسد جیسے ظالمانہ اور جابرانہ اقدامات کشمیریوں کی صورت میں دیکھنے کی منتظر ہیں۔

دنیا بھر میں آمریت، جبر اور ظلم کی داستانیں تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں درج ہیں ان ہی میں شام کے بشار الاسد کا دورِ حکمرانی اور بھارت کے مظالم کی کہانیاں بھی شامل ہیں جنہوں نے انسانیت کو شرمندہ کردیا ہے شام میں بشار الاسد نے ظالمانہ قوت سے شامی عوام پر ظلم کی انتہا کردی تھی جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی نے کشمیری عوام کو جبر و استبداد کے شکنجے میں جکڑ کر بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرکے عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے اصولوں پر سوالات کھڑے کیے ہوئے ہیں اگر دنیا نے کشمیریوں کی آواز نہ سنی تو یہ عالمی انصاف اور انسانی حقوق کے نظام کی مکمل ناکامی ہی گردانی جائے گی اور بنی نوع انسان ایسے ڈھونگی اداروں پر اعتماد کرنا گناہِ کبیرہ جان کر ترک کردیں گے جو پوری انسانیت کا ماتم ہوگا۔