قاہرہ میں منعقدہ ڈی ایٹ ممالک کے گیارہویں سربراہ اجلاس کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے بجا طور پر نوجوانوں کو با اختیار بنانے کی اہمیت کی طرف شرکاء کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں پر سرمایا کاری اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار کے رجحان کو فروغ دینا سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے نہایت اہم ہے۔ پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہماری آبادی کا ساٹھ فی صد سے زیادہ حصہ تیس سال سے کم عمر نوجوان ہیں جو ملکی تعمیر و ترقی میں بھر پورکردار ادا کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں، وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں بتایا کہ چھے لاکھ سے زائد طلبہ کو میرٹ کی بنیاد پر لیپ ٹاپ اور ہزاروں اسکالر شپ دیے گئے ہیں حکومت فلیگ شپ یوتھ پروگرام کے تحت معیاری تعلیم، روز گار اور پیداواری مواقع فراہم کرنے کے لیے بھی پر عزم ہے۔ نوجوانوں کو مصنوعی ذہانت، ڈیٹا اینالسس اور سائبر سیکورٹی کے حوالے سے بھی فنی تربیت فراہم کی جاری ہے ان اقدامات کی بدولت پاکستان اس وقت دنیا کی چند بڑی فری لانسر کمیونٹیز میں سے ایک ہے وزیر اعظم نے اس سلسلے میں ڈی ایٹ ممالک کے سربراہ اجلاس میں باہمی تعاون بڑھانے اور ترقی و خوشحالی کے لیے اشتراک عمل کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ وزیر اعظم نے نوجوانوں کی اہمیت، پاکستان کو اس ضمن میں دستیاب وسائل اور اپنی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کا جس طرح ذکر کیا وہ یقینا قابل ستائش ہی قرار دیا جائے گا لیکن یہ کوششیں اور اقدامات بہرحال ابھی تک ملکی ضرورت کے مقابلے میں بہت کم اور ناکافی ہیں کیونکہ جہاں ایک جانب وزیر اعظم کی دکھائی گئی تصویر سے مثبت پہلو اجاگر ہوتا ہے وہیں تصویر کا دوسرا پہلو وہ بھی ہے جو غربت اور بے روز گاری کے ہاتھوں آئے روز لوگوں کی اہل خانہ سمیت خودکشیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے، اسی کا ایک شاخسانہ وہ سانحات بھی ہیں جو غیر قانونی تارکین وطن کی کشتیوں کے حادثات اور سفر کے دیگر مراحل میں بڑی تعداد میں ان نوجوانوں کے جانی و مالی نقصان کی صورت میں برداشت کرنا پڑتا ہے جو انسانی اسمگلروں کے دکھائے ہوئے خوشنما خوابوں سے متاثر ہو کر اپنے والدین کی عمر بھرکی کمائی ان لیٹروں کے حوالے کر کے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر بیرون ملک کا نہایت مشکل، دشوار گزار اور خطرناک سفر اختیار کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ وزیر اعظم کو یہ دوسری تصویر بھی غور سے دیکھنا چاہیے اور نوجوانوں کو اس بھیانک انجام سے بچانے کے لیے بھی موثر اور ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کرنا چاہیے!