قاہرہ میں ڈی ایٹ سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم نے شریک ممالک کے سربراہان خصوصاً ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، انڈونیشیا کے صدر پر ابودسوبیانتو اور بنگلا دیش کے مشیر اعلیٰ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقاتیں بھی کیں جو اپنی اپنی جگہ مفید اور مثبت اثرات کی حامل ہیں تاہم ماضی میں مشرقی پاکستان رہ چکنے والے بنگلا دیش کی نگران حکومت کے سربراہ ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات سب سے زیادہ خوش کن اور اطمینان بخش قرار دی جائے گی جس کے متعلق خود ڈاکٹر محمد یونس کا یہ کہنا ہے کہ اس ملاقات میں اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط بنایا جائے گا یہ اتفاق رائے بنگلا دیش کے بھارت کے ساتھ بہت زیادہ سرد مہری بلکہ کشیدگی کے شکار موجودہ روابط کے لیے ممکنہ طور پر ایک نئی آزمائش بھی ثابت ہو سکتے ہیں خاص طور پر اس تناظر میں کہ موجودہ عبوری حکومت کے قیام اور سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے شدید عوامی اور طلبہ احتجاج کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے قبل بھارت کا بنگلا دیش میں بے پناہ اثر رسوخ موجود رہا ہے۔ حسینہ واجد نے اپنے ملک سے فرار ہونے کے بعد بھارت ہی میں پناہ لے رکھی ہے اور بنگلا دیش کی عبوری حکومت کا مطالبہ ہے کہ بھارت حسینہ واجد کو بھارت بدر کر کے بنگلا دیش کے حوالے کرے تاکہ اقتدار کے دوران اس کے مظالم اور جرائم کی سزا دینے کے لیے حسینہ کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکے مگر بھارت بنگلا دیشی حکومت کے اس سراسر جائز مطالبہ کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ بیگم حسینہ واجد نے اپنے دور اقتدار میں اپنے سیاسی مخالفین پر ظلم و ستم کی انتہا کیے رکھی خصوصاً 1971ء میں پاکستان توڑنے کی بھارت کی جارحانہ کوششوں کی مزاحمت اور اپنے وطن پاکستان سے وفاداری کا اظہار کرنے والوں کو چن چن کر ان پر ستم ڈھائے گئے، انہیں ضعیف العمری میں پابند سلاسل کیا گیا اور نام نہاد عدالتوں سے سخت سزائیں دلوائی گئیں اور پھر ان سزائوں پر نہایت ڈھٹائی سے عمل بھی کیا گیا۔ صرف جماعت اسلامی کے نصف درجن سے زائد عمر رسیدہ قائدین کو سزائے موت دی گئی جن میں امیر جماعت مولانا مطیع الرحمن نظامی کے علاوہ عبدالقادر ملا، میر قاسم علی، قمر الزمان اور علی احسن مجاہد نمایاں تھے جب کہ پروفیسر غلام اعظم، مولانا دلاور حسین سعیدی، مولانا ابو الکلام یوسف اور مولانا عبدالسبحان جیسے جماعت کے نیک نام قائدین کو عمر قید کی سزا سنا کر پس دیوار زنداں اذیتوں سے دو چار کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان محمد شہباز شریف سے ملاقات کے بعد ڈاکٹر محمد یونس کا جو موقف سامنے آیا ہے وہ نہایت خوش آئند اور حقیقت پسندانہ ہے، ڈاکٹر محمد یونس نے بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 1971ء میں بنگلا دیش کی پاکستان سے علیحدگی اور آزادی کے واقعات سے جڑی ہوئی اور تاحال موجود تمام رنجشوں اور شکایات کو بھی حل کیا جائے۔ دونوں رہنمائوں نے اتفاق کیا کہ ڈھاکا اور اسلام آباد کے درمیان زیادہ دو طرفہ تجارت اور کھیلوں اور ثقافت کے شعبوں میں زیادہ باہمی تبادلوں کے ساتھ آپس کے تعلقات کو مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ محمد یونس نے کہا وہ سارک کی بحالی کی بھر پور خواہش رکھتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ سارک کے رکن ممالک کے سربراہان لازمی طور پر مل بیٹھیں، چاہے صرف ایک مشترکہ گروپ فوٹو کے لیے ہی، اس لیے کہ اس سے بھی دنیا کو ایک واضح اور مضبوط پیغام جائے گا۔ ادھر شہباز شریف نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ محمد یونس کے ساتھ ملاقات میں گرمجوشی اور دل سے تبادلہ خیال ہوا، ہم نے مل کر اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ ہمیں اپنے دو طرفہ اور کثیر الجہتی تعاون کو مزید گہرا کرنا چاہیے۔ خیال رہے کئی دہائیوں کے بعد رواں سال نومبر میں پاکستان سے پہلا مال بردار جہاز براہ راست بنگلا دیش کی چٹا گانگ بندرگاہ میں کنٹینرز اتارنے کے لیے لنگر انداز ہوا تھا۔ شہباز شریف نے پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان تجارت اور سفر کی سہولت کے لیے حالیہ اقدامات پر بنگلا دیش کا شکریہ ادا کیا جس میں پاکستان سے آنے والے سامان کے 100 فی صد فزیکل معائنہ کی شرط کو ختم کرنا اور ڈھاکا ائر پورٹ پر پاکستانی مسافروں کی جانچ پڑتال کے لیے قائم خصوصی سیکورٹی ڈیسک کو ختم کرنا شامل ہے۔ وزیر اعظم نے پاکستانی ویزا کے درخواست دہندگان کے لیے اضافی کلیئرنس کی شرط ختم کرنے پر بھی بنگلا دیش کا شکریہ ادا کیا۔ پاکستان اور بنگلا دیش کے سربراہوں کی یہ ملاقات حوصلہ افزا مستقبل کی امید دلاتی ہے توقع کرنا چاہیے کہ دونوں ملک ماضی کی رنجشوں کو فراموش کر کے برادرانہ تعلقات کے فروغ اور استحکام کے لیے ٹھوس اقدامات میں تاخیر نہیں کریں گے۔