ایک برطانوی اخبار نے ضلع کرم میں فرقہ وارانہ تصادم اور کشیدگی کے باعث دواؤں کی شدید قلت کے نتیجے میں 30 بچوں کے جاں بحق ہونے کا دعوٰی کیا ہے۔ دی گارجین ڈاٹ کام نے شاہ میر بلوچ کی ارسال کردہ رپورٹ میں بتایا کہ تمام اہم سڑکیں بند ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کی قلت بھی غیر معمولی شکل اختیار کرچکی ہے۔ دواؤں کی قلت سے ضلع کرم میں صورتِ حال انتہائی تشویش ناک ہوچکی ہے۔ شدید زخمیوں اور نازک حالت والے مریضوں کو ایدھی فاؤنڈیشن کی ایئر ایمبولینس سروس کے ذریعے پشاور منتقل کیا جارہا ہے۔
دی گارجین نے لکھا ہے کہ دونوں متحارب فرقوں کے لوگ اس قدر خوفزدہ ہیں کہ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ صوبائی یا علاقائی حکومت نے کہا ہے کہ وہ سڑکیں اُسی وقت کھولے گی جب فریقین کے مسلح دھڑے ہتھیار رکھ دیں گے۔
ضلع کرم کے صدر مقام پارا چنار کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سید میر حسن نے کہا ہے کہ فریقین میں مسلح تصادم اور کشیدگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دواؤں کی قلت سے 30 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔
پارا چنار کے 25 سالہ احباب علی نے بتایا کہ اشیائے خور و نوش، دودھ، ایندھن اور دواؤں کی شدید قلت ہے۔ ایک بڑا انسانی المیہ رونما ہونے کے مرحلے میں ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے۔
ضلع کرم کی آبادی کم و بیش آٹھ لاکھ ہے اور یہ علاقہ ایک زمانے سے فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز ہے۔ صحتِ عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال اور 30 بچوں کے جاں بحق ہونے پر صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صورتِ حال بہتر بنانے کے اقدامات کر رہی ہے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے جو کچھ بھی کیا جارہا ہے وہ زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔