ایک بہت پرانی گھسی پٹی سی حکایت ہے کہ ایک چرواہا جنگل میں بکریوں کو چرانے کے لیے لے گیا وہاں اس نے شور مچانا شروع کردیا کہ شیر آگیا، شیر آگیا آواز سن کر لوگ اپنے ہتھیاروں کے ساتھ دوڑے دوڑے آئے تو معلوم ہوا کہ وہاں کوئی شیر ویر نہیں چرواہے نے ایسے ہی شرارت کی ہے۔ کچھ دن کے بعد چرواہے نے پھر یہی حرکت کی پھر لوگ آئے وہاں کوئی شیر نہیں تھا لوگ چرواہے کو برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے ایک دن واقعتا شیر آگیا اب چرواہا چلانے لگا کہ شیر آگیا شیر آگیا لیکن اس دفعہ کوئی نہیں آیا کہ لوگوں نے سمجھا یہ تو ایسے ہی ہم سے مذاق کرتا ہے پھر یہ ہوا کہ شیر اس کی کچھ بکریوں کو کھا کر چلا گیا۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے یہ حکایت کس تناظر میں پیش کی گئی ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ فروری 2024 میں جو انتخابات ہوئے اس میں عمران خان مقبولیت کی معراج پر تھے اور ووٹروں کی اکثریت نے بڑے دل اور جذباتی لگائو سے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا لیکن پھر ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا، محبت اور جنگ میں تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ کسی کی زبان چلتی ہے تو کسی کا ہاتھ چلتا ہے آپ نے بھی اپنی زبان سے کیا کچھ نہیں کہا، کبھی میر جعفر اور میر صادق کہا، کبھی کہا کہ نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے پھر جن کو کہا گیا انہوں نے زبان سے جواب دینے کے بجائے ہاتھ سے جواب دے دیا پھر اس کو ایک اور پہلو سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے یعنی 2018 کے انتخاب میں ایسا ہی ہاتھ ن لیگ کے ساتھ ہوا تھا اور اس کے بینیفشری آپ تھے اب 2024 میں آپ کے ساتھ ہاتھ ہوا ہے تو بینیفشری نواز لیگ ہوگئی ہاں یہ بات کہہ سکتے ہے اس دفعہ ہاتھ کچھ زیادہ ہی لمبا ہوگیا۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے 2018 کے بعد ن لیگ نے کیا کیا۔ انہوں نے اخباری بیانات دیے، عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا انتخابی ٹریبونل میں گئے کچھ احتجاجی جلسے بھی کیے، لیکن کبھی بھی دھرنے مظاہرے اور یلغار کی بات نہیں کی انہوں نے دو کام پر اپنی توجہ مرکوز رکھی کہ سارا زور پارلیمنٹ کے اندر دیا اور دوسری بات یہ تھی کہ ن لیگ نے صبر اور انتظار کیا کہ کبھی تو بچکانہ اور غیر سنجیدہ حرکتوں کی وجہ سے ان کی اسٹیبلشمنٹ سے دوری اور مخالفت ہو جائے گی۔
دوسری طرف مولانا فضل الرحمن کو کے پی کے میں تحریک انصاف کی وجہ سے سیاسی نقصان پہنچا انہوں نے تو اسلام آباد میں چھے سات دن کا دھرنا بھی دیا تھا۔ پھر ن لیگ جس موقع کی تلاش میں تھی وہ اسے مل گیا اور اسٹیبلشمنٹ کی شفقت اور مولانا کی معاونت سے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کامیاب کراکے عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے محروم کردیا۔ اس سیاسی عمل سے بہت سوں کے دلوں میں ٹھنڈ پڑگئی۔ اقتدار سے محرومی کے غم و غصے اور پورے ملک میں اپنے حق میں عوامی مظاہرے۔ ان دو چیزوں نے بانی پی ٹی آئی کے دماغ کو چوتھے آسمان پر پہنچا دیا انہوں انتہائی جذباتی بیانات دیے اداروں ہی کی نہیں بلکہ اہم شخصیات کو بھی نشانہ بنایا اسی دوران 9 مئی کا واقعہ بھی ہوگیا ان تمام وجوہات کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ سے ان کی دوری ہوتی گئی۔ ان کا یہ خیال تھا یا خوش فہمی تھی کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں اور جس طرح ترکیہ میں ہوا تھا اسی طرح یہاں بھی عوام وردی والوں کے مقابلے پر آجائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ عمران خان کو چاہیے تھا کہ پورے ملک میں ہلکے سروں میں اپنی احتجاجی مہم چلاتے رہتے تاکہ اشو ٹھنڈا نہ ہونے پائے دوسری طرف اسمبلی کے اندر شدت سے اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہتے اور پھر موقع کے انتظار میں رہتے جیسا انتظار نواز شریف نے کیا تھا۔
ہمیں دوسرے سیاست دانوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ بھٹو صاحب کی آمریت عروج پر تھی اپوزیشن کی جماعتیں بکھری ہوئی تھیں کسی میں احتجاج اور مظاہرے کرنے کی ہمت و جرأت نہ تھی حزب اختلاف کی جماعتیں موقع کے انتظار میں تھیں کہ بھٹو نے خود اپنی حماقت سے موقع فراہم کردیا، آئینی طور پر ان کے اقتدار کی مدت اگست 1978 تک تھی۔ بھٹو کو 1976 کے آخری مہینوں میں ایجنسیوں نے رپورٹ دی کہ اس وقت پورے ملک میں پی پی پی کا توتی بول رہا ہے اپوزیشن منتشر ہے اگر انتخابات کرادیے جائیں تو آپ دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے چنانچہ انہوں نے مارچ 1977 میں جنرل الیکشن کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کے بعد تمام سیاستدان ایک جگہ جمع ہوئے اور پوری رات آپس میں تبادلہ خیال کرکے نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل کا اعلان کردیا دیکھتے ہی دیکھتے یہ اتحاد پورے ملک میں عوام کے جذبات کا ترجمان بن گیا پھر آپ نے دیکھا کہ صرف پانچ ماہ کے اندر بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہو چکے تھے۔ 1988 کے انتخاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کو 20 ماہ کے بعد صدر غلام اسحاق نے ایک آئینی شق کے تحت ختم کردیا۔ بینظیر کو صدر غلام اسحاق پر غصہ تو بہت آیا لیکن وہ یہ بھی سمجھتی تھیں کہ یہ صدر کا اپنا فیصلہ نہیں ہے انہوں نے کچھ احتجاجی بیانات تو دیے لیکن کوئی مہم نہیں چلائی البتہ انتظار کیا کہ جلد یا بدیر صدر اور وزیر اعظم میںکھچائو پیدا ہوسکتا ہے جس طرح ہماری حکومت گئی ہے اسی طرح نواز لیگ کی بھی جاسکتی ہے اور وہ موقع آگیا نواز شریف اور غلام اسحاق خان میں اختلافات شدت اختیار کرگئے تو آرمی چیف نے کہا کہ دونوں استعفا دے دیں۔ بینظیر اس موقع کو کھونا نہیں چاہتی تھیں انہوں نے غلام اسحاق خان سے کہا کہ وہ ابھی مستعفی ہوجائیں ہم جب آئیں گے تو آپ کو دوبارہ صدر بنالیں گے۔ پھر جب بینظیر کامیاب ہوگئیں تو انہوں نے فاروق لغاری کو صدر بناکر اپنا انتقام لے لیا۔ نواز شریف کی حکومت کو پرویز مشرف نے ختم کیا دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود نواز شریف نے ایک حد تک ہی احتجاجی مہم چلائی وہ بھی ان کی اہلیہ نے۔ پھر اسی حکمران سے بالواسطہ مذاکرات کیے جس نے ان کی حکومت ختم کی تھی اور سعودی عرب چلے گئے۔ نواز شریف نے یہ نہیں کہا کہ ہم آئین توڑنے والوں سے کوئی مذاکرات نہیں کریں گے۔ ہر سیاسی رہنما اپنے راستے بناتا ہے۔ عمران خان کے مسلسل احتجاج (جس میں دھرنا اسلام آباد پر یلغار اور تحریک سول نافرمانی شامل ہیں) کی ناکامی نے ان کی سیاسی پوزیشن بہت بری طرح مجروح کی ہے۔ اب جب انہوں نے جو مذاکراتی کمیٹی بنائی ہے تو اس وقت بنائی جب تحریک انصاف کمزور وکٹ پر کھڑی ہے اس لیے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے ان کی مذاکرات کی خواہش کو پیروں تلے کچل دیا۔
عمران خان کو چاہیے تھا کہ بڑی بڑی بھڑک مارنے کے بجائے سلو موشن میں اپنی احتجاجی تحریک چلاتے رہتے جس طرح کرکٹ کا کھلاڑی ٹک ٹک کرکے ایک ایک اور دو، دو رنز بناتا رہتا ہے اور اسی میں انتظار میں رہتا ہے جیسے ہی کوئی لوز بال آتی وہ چوکا اور چھکا لگادیتا ہے اسی طرح عمران خان اپنی احتجاجی مہم کے ساتھ انتظار کرتے کہ کب ن لیگ اور پی پی پی میں اختلاف پیدا ہو اور یہ پی پی پی کو اپنے ساتھ ملا کر شہباز شریف کے لیے مشکلات پیدا کرسکتے تھے یا دوبارہ انتخاب کا ماحول بناسکتے تھے لیکن عمران خان کا یہ کہنا کے چوروں اور ڈاکوئوں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کے دور حکومت میں اگر خدا نہ خواستہ کوئی ہائی جیکر جہاز اغوا کرلیتا تو مسافروں کی جان بچانے لیے ان کی حکومت کو ان ہی ہائی جیکروں سے مذاکرات کرنے پڑتے جنہوں نے جہاز اغوا کیا تھا کیا اس وقت عمران خان یہ کہہ سکتے تھے کہ ہائی جیکروں سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اس لیے کہ انہوں نے بہت بڑا جرم کیا ہے۔ اب بھی وقت عمران خان سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کریں اور جو کمیٹی بنائی جائے اس کو آپ مذاکرات کے لیے ٹرم آف ریفرنس یعنی کچھ اہم نکات کہ کتنی اور کس حد تک بارگینگ کرنا ہے اور جو کمیٹی بنائیں اس پر اعتماد کریں اور مذاکرات میں جو فیصلے ہوں انہیں خوشدلی سے تسلیم کرلیں اس سے آپ کے لیے راستے کھلیں گے۔