16 دسمبر ایک ناقابل ِ فراموش ذلت و مسکنت

268

پہلے آئین ِ پاکستان 1956 کے نفاذ کی خوشی میں 23 مارچ 1957 اور 1958 کو سالانہ یومِ جمہوریہ منایا گیا۔ قتل ِ آئین کے بعد 1959 میں 23 مارچ کو فیلڈ مارشل نے 1940 کی قراردادِ لاہور سے منسوب کر دیا گیا اور قوم سب کچھ بھول بھال کر 23 مارچ کو یومِ آئین ِ پاکستان کے بجائے یومِ پاکستان منانے لگی اور آج تک منائے چلی جا رہی ہے۔ ایوب خان جو ابلیسی آقاؤں کا فرمانبردار مہرہ بن کر ایک مطلق العنان ڈکٹیٹر کے روپ میں پاکستان کی تقدیر پر قابض ہو کر بیٹھ گیا اور مسلمانوں نے جو اسلام کا خواب دیکھا تھا، جس کی منزل لیاقت علی خان نے قرار داد مقاصد کی صورت میں قریب کی تھی وہ منزل ایک بار پھر نگاہوں سے دور ہی نہیں بلکہ اوجھل سی ہو گئی۔ علامہ اقبال نے 1930 کے خطبہ الٰہ آباد میں مسلمانانِ ہند کو جو خواب دیکھا یا تھا اس میں صرف اور صرف مغربی پاکستان کے خطے کا ذکر تھا۔ جب اس کی تعبیر کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے کمرِ ہمت کس لی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کیے کہ بر ِصغیر کے مسلمانوں کو ایک نہیں دو پاکستان عطا فرمائے۔ مشرقی پاکستان کا علاقہ علم ِ سیاسیات کے مروجہ اصولوں کے مطابق ایک زبا ن، ایک رنگ، ایک نسل، ایک قوم، ایک علاقہ، ایک تہذیب اور ایک تمدن رکھتے ہوئے ایک علٰیحدہ ریاست بننے کی تمام شرائط کو پورا کرتا تھا۔ جبکہ مغربی پاکستان جہاں نہ ایک زبان ہے، نہ ایک رنگ ہے نہ ایک نسل ہے، نہ ایک قوم ہے، نہ ایک علاقہ ہے، نہ ایک تہذیب ہے اور نہ ہی ایک تمدن ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہاں مذہبی لحاظ سے شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی اور قادیانی کی تقسیم بھی مشرقی پاکستان سے زیادہ موجود تھی لہٰذا یہ خطہ کسی بھی طور سے ایک قوم بننے کی شرائط کو پورا نہ کرتے ہوئے ایک ملک بننے کا مستحق نہیں تھا۔

یہ صرف اور صرف کلمہ طیبہ کا زندہ معجزہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فی زمانہ مروجہ سیاسیات کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانانِ ہند کو ایک نہیں دو پاکستان عطا فرمائے۔ جس کے لیے دنیاوی جواز مسلم لیگ ہے جس کی بنیاد مشرقی بنگال میں رکھی گئی تھی جس نے بعد ازاں پاکستان کے قیام کا مطالبہ کیا باوجود یکہ پاکستان کا یہ حصہ تاریخی اسباب کی وجہ سے سیاسی و سماجی اور ثقافتی سطح پر مغربی حصے سے یکسر مختلف اور 1500 کلو میٹر کی دوری پر بھارت کی سرحد سے متصل موجود تھا۔ مگر عدالت عظمیٰ کے غیر آئینی فیصلوں اور مارشل لا کے نفاذ کے بعد ڈیپ اسٹیٹ کے حمایت یافتہ غیر عوامی حکمرانوں کی کلمہ طیبہ سے روگردانی اور اسلام سے مستقل پسپائی کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی گئی جن کے باعث بنگلا دیش وجود میں آیا۔ جبکہ اس عمل کے زمینی حقائق کچھ یوں بیان کیے جاتے ہیں کہ 25 فروری، 1948 کو مشرقی بنگال کے ایک رکن دھریندر ناتھ دتا نے متحدہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں اردو کے ساتھ بنگالی کے استعمال کے لیے تحریک پیش کی جسے مسترد کردیا گیا۔ یہ خبر جب ڈھاکا پہنچی تو اس پر شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ شیخ مجیب نے جنوری 1948 میں طلبہ تنظیم ’’ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹ لیگ‘‘ کی بنیاد رکھی جس نے بعد ازاں بنگالی زبان کی تحریک چلائی۔ مارچ، 1948 کو بنگلا زبان کے مسئلہ پر مشرقی بنگال میں طلبہ نے پہلا احتجاج کیا جن پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا۔ اسی دوران قائد ِ اعظم نے ڈھاکا کے دورے کے دوران اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا تو وہاں کے بعض حلقوں نے کڑی تنقید کی۔ جبکہ مسلم لیگ کی تنظیم ِ نو کے بعد مولانا بھاشانی، اے کے فضل الحق اور دیگر کئی رہنماؤں نے مسلم لیگ سے علٰیحدگی کا اعلان کر کے نئی جماعت ’عوامی مسلم لیگ‘ کی بنیاد رکھی جس میں شیخ مجیب الرحمن کو جوائنٹ سیکرٹری منتخب کیا گیا۔

مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی رہنما خواجہ ناظم الدین 26 جنوری، 1952 کو وزیر ِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد ملک کے وزیر ِ اعظم بن گئے اور انہوں نے ایک بار پھر اردو کو قومی زبان قرار دینے کا اعلان کیا۔ بالآخر شدید احتجاج کے بعد مشرقی بنگال کی اسمبلی نے اردو کے ساتھ بنگلا کو بھی قومی زبان بنانے کی قرارداد منظور کر لی۔ لیکن اس دوران مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام اور رہنماؤں میں اختلافات کی خلیج وسیع تر ہو چکی تھی۔ دسمبر، 1954 میں مشرقی بنگال میں حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب کی عوامی لیگ، فضل الحق کی کرشک سرامک پارٹی، بائیں بازوں کی جماعت گناتنتری دل اور نظامِ اسلام پارٹی نے متحدہ محاذ یا ’جگتو فرنٹ‘ کے نام سے چار جماعتی انتخابی اتحاد بنایا۔ اس اتحاد نے 21 نکاتی پروگرام پر اتفاق کیا تھا جس میں بنگالی کو سرکاری زبان بنانے اور 1940 کی قراردادِ لاہور کے مطابق صوبائی خود مختاری جیسے مطالبات شامل تھے۔ مشرقی بنگال کے صوبائی انتخابات میں جگتو فرنٹ کو کامیابی حاصل ہوئی اور ملک کی بانی جماعت مسلم لیگ کو شکست ہوئی۔ اپریل، 1954 میں شیر ِ بنگال اے کے فضل حق جگتو فرنٹ کی حکومت کے وزیر ِ اعلیٰ بنے۔ واضح رہے کہ اے کے فضل حق نے ہی 23 مارچ 1940 کی قراردادِ لاہور پیش کی تھی۔ صوبائی انتخابات کے بعد سے مشرقی بنگال میں بنگالی اور غیر بنگالی آبادی کے درمیان مزید تلخیاں بڑھنے لگیں۔ 29 مئی، 1954 کو گورنر جنرل غلام محمد کی مرکزی حکومت نے امن و امان کے حصول میں ناکامی اور بھارت سے ساتھ مل کر متحدہ بنگال بنانے کی سازشوں کے الزامات کو بنیادبنا کر مشرقی بنگال کی صوبائی حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج نافذ کردیا۔ جون، 1955 میں شیخ مجیب الرحمن دستور ساز اسمبلی کے رکن بن گئے۔

14 اکتوبر، 1955 کو ون یونٹ کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد بلوچستان، سرحد، پنجاب اور سندھ کو ملا کر مغربی پاکستان کے نام سے ایک نیا صوبہ بنا دیا گیا اور مشرقی بنگال کا نام تبدیل کر کے ’مشرقی پاکستان‘ کر دیا گیا۔ اس اقدام کی ملک کے دونوں حصوں میں مخالفت کی گئی تھی۔ 1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد اے کے فضل حق کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنا دیا گیا۔ اپریل، 1957 میں مشرقی پاکستان اسمبلی میں مکمل صوبائی خود مختاری کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی۔ 11 اکتوبر، 1957 کو صدر اسکندر مرزا نے وزیر ِ اعظم حسین شہید سہروردی سے استعفا لے لیا۔ آئین سازی کے بعد 1957 میں انتخابات منعقد ہونا تھے جنہیں اسکندر مرزا نے صدر بننے کے بعد 1959 تک ملتوی کر دیا تھا اور ساتھ ہی جرنل ایوب خان کی مدتِ ملازمت میں دو سال کی توسیع کر دی، جس نے سات اکتوبر 1958 کو ملک میں مارشل لا نافذ کر کے 27 اکتوبرکو اسکندر مرزا سے اِستعفا لے کر سیاسی سرگرمیوں اور طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کردی گئی۔ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی اور شیخ مجیب الرحمن سمیت سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا گیا۔ (جاری ہے)