شام 53 سالہ اقتدار کی ’’شام‘‘ کے بعد

78

شام میں اسد خاندان کے ترپن سالہ اقتدار کی شام ہو گئی اور سرِشام ہی بشار الاسد بھرا میلہ چھوڑ کر روس کو سدھار گئے اور اب وہ باقی عمر روس کی سرد شاموں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزاریں گے۔ بشار الاسد جس انداز سے محفوظ راستہ استعمال کرتے ہوئے دمشق سے نکل گئے اس سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ ان کی رخصتی میں ایک ڈیل اور امریکا کی طرف سے حاصل ہونے والے این آر او کا عمل دخل ہے۔ وگرنہ شام میں چمچماتے ہوئے ویگو ڈالوں کے طوفان میں اتنی صفائی کے ساتھ بچ نہ پاتے اور ان کا انجام بھی صدام حسین اور معمر قذافی جیسا نہ سہی کم ازکم مصر کے حسنی مبارک جیسا ہو سکتا تھا۔ کہا یہی جا رہا ہے کہ روس نے بشار الاسد کے اقتدار کو آخری موڑ دینے کے بدلے یوکرین میں کچھ رعایتیں حاصل کیں۔ ایران نے بھی جب حالات کا دھارا بدلتے دیکھا تو خطے میں اپنے ایک اہم اتحادی کو بچانے سے ہاتھ کھڑے کر لیے۔ اس سے پہلے حزب اللہ اور حماس کو پہنچنے والے نقصان کے باعث خطے میں ایران کا اثر رسوخ محدود ہو چکا تھا۔ برسوں تک حافظ الاسد اور ان کے بیٹے بشار الاسد نے شام کے ساتھ جو کچھ کیا اس میں قطعی کوئی انوکھا پن نہیں۔ اس کو مسلک اور سیاسی سوچ روس اور امریکا نوازی کے زاویے سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو کے بعد ان ٹکڑوں کو غیر مستحکم چھوڑا گیا سامراجی ممالک ٹکڑوں کو طاقت کے حکمرانی کے اصول کے تحت چھوڑ کر چلے گئے۔ یوں جس ملک میں جو بہتر سازشی ذہن کا تھا طاقت جمع کرکے اقتدار میں آتا رہا۔ شخصی حکمرانی کی بنیاد شک اور خوف پر ہوتی ہے۔ شخصی حکمران اپنے سائے اور پتوں کی کھڑکھڑاہٹ اور ہوا کی سرسراہٹ پر بھی چونک جاتا ہے۔ اس عالم بوکھلاہٹ میں اس سے غیر انسانی حرکات رونما ہونا انوکھی بات نہیں ہوتی۔

عرب حکمرانوں نے ہر دور میں اپنی شخصی اور خاندانی حکمرانیو ں کو دوام بخشنے کی خاطر اپنے عوام کے سروں پر حکومت کی۔ جمال ناصر نے مصر میں اخوان کے ساتھ جو کیا تاریخ کا حصہ ہے۔ عراق میں صدام حسین، لیبیا میں معمر قذافی نے کیا کچھ نہیں کیا۔ شام میں اسد خاندان نے اپنی خاندانی حکمرانی کو بچانے کے لیے شام کو تباہ کروادیا مگر طاقت کو چھوڑنا قبول نہیں کیا۔ عرب حکمرانوں کی پالیسی میں عوام ان کی ذاتی اور خاندانی حکمرانی کا نام رہا ہے۔ عوامی بغاوت یا سازش نے جس حکمرانی کا ڈھکن اُٹھایا نیچے ظلم وجبر کی سڑاند زدہ کہانیاں اور داستانیں ہی ملتی رہیں۔ یہی آج کے شام میں ہورہا ہے۔ جہاں رونگٹے کھڑے کردینے والی کہانیاں سامنے آرہی ہیں۔ برسوں سے قید لوگوں کے چہرے ان پر بیتنے والی کہانی سنا رہے ہیں۔ وہ زبان سے کچھ نہ بولیں ان کی صبح ان کی رات کا فسانہ سنا رہی ہیں۔ بشار الاسد کے لیے یہی کافی تھا کہ انہیں صدام حسین کی طرح کسی غار سے برآمد نہیں کیا گیا یا قذافی کی طرح سیوریج کے کسی پائپ سے زخمی حالت میں نکالا گیا اور حسنی مبارک کی طرح کسی پنجرے میں بند کرکے عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ بشار الاسدکے بس میں ہوتا وہ شام کو مزید کھنڈر بنواتے مگر شاید ان کی رخصتی پر بڑے کھلاڑیوں میں اتفاق رائے ہوچکا تھا۔

عرب دنیا سرد جنگ میں سوویت یونین اور امریکا کے دوکیمپوں میں بٹی رہی۔ ان میںکئی بادشاہتیں امریکا کے ساتھ وابستہ رہیں اور کئی جمہوریائیں سوویت یونین کے نظریاتی قرب میں رہیں۔ روس کو یہ قلق رہا کہ وہ عرب بہار کے دوران اپنے اتحادیوں کو نہ بچا سکا۔ جن میں صدام حسین سرفہرست تھے۔ یہی احساسِ ندامت ردعمل بن کر اس وقت چھلک پڑا جب عرب بہار نے شام کی دہلیز پار کی اور بشار الاسد حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ چل نکلا۔ روس نے سردجنگ دور کے اتحادی اور بعث پارٹی کے اسد خاندان کے اقتدار کو بچانے کے لیے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا اور یہ روس کی مداخلت ہی تھی کہ بشار الاسد ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک شام کے کھنڈرات پر حکومت کرتے رہے۔

شام ان ممالک میں شامل تھا جو فلسطین اور اسرائیل کے تنازعے کے حوالے سے جغرافیائی اہمیت کے حامل تھے کیونکہ ان ملکوں کی سرحدیں براہ راست ارض فلسطین سے ملتی تھیں۔ ان میں مصر اُردن اور لبنان پہلے ہی ڈھیر ہوتے چلے گئے اور آخر میں شام ہی مزاحمت کی ایک مدھم ہوتی اور بجھتی ہوئی چنگاری کے طور پر باقی تھا۔ شام نے بھی حالات سے مایوس ہو کر فلسطینیوں کی حمایت سے اسی طرح ہاتھ کھینچ لیا جس طرح پہلے کئی عرب ریاستیں ان سے منہ موڑ چکی تھیں۔ حماس کے لیڈروں کو دمشق چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور یہ سمجھا گیا کہ یہ بوجھ اُتارنے کے بعد ان کا تخت وتاج محفوظ ہوجائے گا مگر یہ وہی خام خیالی ثابت ہوئی جس کا شکار معمر قذافی اپنا ایٹمی مواد سرینڈر کرکے ہوئے تھے۔ ایٹمی مواد حوالے کرنے کے باوجود وہ اپنی جاں بخشی نہ کروا سکے اور ایک روز پراسرار ویگو ڈالوں کا طوفان ان کے اقتدار کو بہا کر لے گیا۔ فلسطینیوں کی مزاحمت کے لیڈروں کو بے دخل کرنے سے بھی بشار الاسد اپنے انجام کو روک نہ سکے۔ اسداقتدار اب شام کا تلخ ماضی بن چکا ہے۔ روس اور ایران کے لیے اس کرم خوردہ درخت کو مصنوعی سہارے کے ذریعے ایستادہ رکھنا ممکن نہ تھا۔ ایران کے وزیر خارجہ عباس عرقچی بظاہر تو یہ جاننے کے لیے دمشق پہنچے تھے کہ بشار الاسد میں حالات کے مزاحم ہونے کا کتنا دم خم باقی ہے حقیقت میں وہ ان کی رخصتی کے عمل کا آخری جائزہ لینے دمشق پہنچے تھے اور اسے الوداعی ملاقات ہی کہا جا سکتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ روس نے شام پر مفاہمت کرتے ہوئے ایران کو یکسر نظر انداز کیا ہو۔ اب شام کی آزادی اور انقلاب کا جشن تمام ہوگا تو تصویر کے اصل خدوخال اُبھرنا شروع ہوں گے۔

شام اسرائیل کے ساتھ زمینی تنازع رکھنے والا ملک ہے۔ بشار الاسد حکومت کے خاتمے پر اسرائیل نے جشن کا آغاز ہی گولان کی پہاڑیوں پر پیش قدمی سے کیا۔ گولان کی پہاڑیاں شام کا حصہ ہیں جن پر عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے قبضہ کیا تھا۔ 1974 میں شام اور اسرائیل کے درمیان فوجی انخلا کا معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت دونوں فریق گولان کی پہاڑیوں پر جنگ بندی برقرار رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کے ڈس انگیج منٹ آبزور فورس کے عملے کو تعینات کرنے پر متفق ہوئے تھے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے شام میں حالات تبدیل ہوتے ہی اعلان کیا ہے کہ معاہدہ اب موثر نہیں رہا کیونکہ شامی فوج نے اپنی پوزیشنیں چھوڑ دی ہیں۔ شامی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل شام کے حالات کا فائدہ اُٹھا کر اس کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ گولان کی پہاڑیاں اسرائیل کی سیکورٹی اور علاقائی استحکام کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ شام کی آزادی اور انقلاب کا پہلا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ 1974 کے معاہدے کے بعد پہلی بار اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قائم بفرزون میں قدم رکھا ہے۔ اسرائیل نے اس پیش قدمی کو عارضی کہا ہے مگر اس کے مقاصد طویل المیعاد ہیں اور وہ شام کے مزید علاقوں پر قبضہ کرنے سے باز نہیں آئے گا۔ ایسے میں شام میں اسد خاندان کے اقتدار کی شام تو ہوگئی مگر اس سے شام کے عوام کے دکھوں اور مصائب کی شام بھی ہوگی؟ یہ کہنا قبل ازوقت ہے کیونکہ جس طرح مصر میں انقلاب اور آزادی کا سفر سال بھر میں ہی مصری عوام کے لیے داغ داغ اُجالا اور شب گزیدہ سحر ثابت ہوا تھا اسی طرح شام میں انقلاب لانے والوں نے شامی عوام کے دکھوں اور مصائب کے خاتمے کے لیے برسوں محنت نہیں کی۔