مقبوضہ جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کے جناب غلام محمد میر جو شمس الحق کے نام سے جانے جاتے ہیں، 16 دسمبر 1993 میں اپنے ہی آبائی ضلع بڈگام میں شہید ہوئے۔ یہ ان کا 31 واں یوم شہادت ہے۔ شہید شمس الحق گفتار اور کردار کے غازی تھے۔ جو سبق دوسروں کو پڑھایا، وقت آنے پر اپنے خون سے گواہی دی شمس الحق بے حد شرمناک اور افسوسناک طرز عمل کا نشانہ بنائے گئے۔ مگر نہ جانے شمس الحق کے سینے میں اللہ ربّ العالمین نے کون سا دل رکھا تھا کہ وہ نہ صرف معاف اور صرف نظر کرنے کے خود قائل تھے، بلکہ دوسروں بالخصوص اسلام پسندوں کو اسی بات کی ترغیب دیتے تھے طویل جدو جہد اور انتھک محنت و مشقت کے بعد 1989 میں مسلح تحریک نے کشمیری معاشرے میں تبدیلی آئی اور اس مسلح تحریک کی بنیاد 1987 میں کرائے جانے والے وہ نام نہاد انتخابات تھے جن میں آزادی پسند جماعتوںکے امیدواران کو دھاندلی سے شکست دی گئی۔ جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر نے نئی راہ اپنائی اور آزادی کے لیے تحریک برپا کی محمد مقبول الٰہی، محمد اشرف ڈار، شیخ عبدالوحید، ناصر الاسلام، محمد احسن ڈار، اعجاز ڈار، اشفاق مجید وانی، شیخ عبد الحمید، محمد یاسین ملک اور جاوید احمد میر مسلح تحریک کے قافلے کے سالار ٹھیرے۔ جبکہ اعجاز احمد ڈار مسلح تحریک کے پہلے شہید کہلائے اس کارروائی میں محمد مقبول الٰہی زخمی ہوئے۔ مسلح تحریک کے ان راہنمائوں میں صرف شیخ عبدالوحید، محمد احسن ڈار، محمد یاسین ملک اور جاوید احمد میر ہی حیات ہیں یاسین ملک بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔
شہید شمس الحق ایک نرم مزاج اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ وہ میدان جہاد میں امیر حزب المجاہدین کے فرائض انجام دے رہے تھے کہ 1992 میں انہیں بیس کیمپ آنا پڑا، ان کے ساتھ جناب میر احمد حسن بھی تھے شہید شمس الحق، دین کے داعی، مبلغ اور دانشورانہ حس زیادہ رکھتے تھے شمس الحق کے ایک ہی بھائی علی محمد میر تھے، اور دونوں تحریک آزادی میں اپنا خون نچھاور کرچکے ہیں۔ شمس الحق کی سرفروشانہ شہادت اپنی جگہ لیکن اہل کشمیر ایک داعی، مبلغ اور دانشور سے محروم ہوگئے۔ انہیں محترم قاضی حسین احمد نے بہت روکنا چاہا، مگر جس راستے کا درس وہ دوسروں کو دیتے رہے۔ خود اس راستے سے ترک تعلق انہیں کسی صورت قبول نہیں تھا۔ بالاآخر 16 دسمبر 1993 میں بھارتی افواج کے ساتھ ایک خونین معرکے میں اپنی کل متاع تحریک آزادی پر قربان کی۔
شمس الحق پاکستان کے ساتھ بے حد محبت اور عقیدت رکھتے تھے اور سقوط مشرق پاکستان انہیں بے حد تکلیف پہنچانے کا باعث تھا۔ بالاآخر 16 دسمبر ہی کو وہ اپنی جانی قربانی سے گزر گئے۔ ٹھیک اسی دن جب 1971 میں مشرقی پاکستان مملکت خداداد سے عالمی استعمار کی سازشوں اور بھارت کی عملًا فوجی مداخلت سے الگ ہوا، جس کا اعتراف فسطائی مودی نے ڈھاکا میں ایک تقریب سے اپنی تقریر میں کھلے لفظوں میں کیا ہے۔ اس وقت حسینہ واجد بنگلا دیش کی وزیر اعظم تھیں بنگلا دیش کی موجودہ صورتحال آج شہید شمس الحق کی روح کو سکون و اطمینان پہنچانے کا باعث ہوگی۔ بنگلا دیش کی تبدیلی کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی لیکن اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال بھی ڈرامائی انگڑائی لے گی۔ اس پر ہمارا ایمان اور یقین ہونا چاہیے۔ اسی کے لیے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی جاچکی ہیں اور آج بھی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ شہید شمس الحق کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ جو سراپا محبت و اخلاص، شرافت، دیانت و امانت اور اعلیٰ کردار کے مالک تھے۔ جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے تحریک آزادی کشمیر کے سمبل امیر حزب المجاہدین سید صلاح الدین احمد نے شہید شمس الحق کو ان الفاظ میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے، اگر میں مجاہدین کا سربراہ نہ ہوتا، تو میں اتنا روتا کہ شاید روتے روتے میری روح بھی قفس عنصری سے پرواز کرجاتی۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔