احتساب کا خو دساختہ ڈراما

176

پاکستان کی سیاسی، جمہوری، آئینی اور قانونی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس میں ایک بڑا کھیل احتساب کے نظام کا بھی ہے۔ اس کھیل کو ہم نے کبھی بھی منصفانہ اور شفاف بنانے کے بجائے اپنے سیاسی اور غیر سیاسی مخالفین کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ ہم نے احتساب کو بنیاد بنا کر سیاسی حکومتوں کو بنانے، بگاڑنے اور توڑنے کے کھیل میں بھی استعمال کیا۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ یا سیاسی حکومتیں اسی کھیل کی بنیاد پر اپنے اقتدار کے کھیل کو اپنی سیاسی طاقت کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ اس ملک میں طاقت ور طبقہ چاہے وہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی کرپشن، بدعنوانی یا اقربا پروری یا ریاستی وحکومتی دولت یا وسائل کی لوٹ مار میں مصروف نہیں ہوتا یا یہ لوگ کرپشن سے پاک اور شفاف ہوتے ہیں۔ بلکہ اصل کھیل یہ ہے کہ ہم کسی کا بھی احتساب نہیں کرنا چاہتے اور اربوں روپے اس کھیل کی بنیاد احتساب پر مبنی ادارے بنانے پر خرچ کرتے ہیں مگر شفاف احتساب ہماری سیاسی ترجیحات کا حصہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ہم اصولی طور پر کسی کو بھی احتساب کے دائرہ کار میں نہیں لانا چاہتے بلکہ اس کھیل کو سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی میں بھی خفیہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح جب بھی اس ملک میں منصفانہ اور شفاف، بے لاگ یا کڑے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو سیاسی طبقہ اس عمل کو سیاست اور جمہوریت کے خلاف ایک سازش کے طور پر پیش کرکے احتساب مخالف بیانیہ بناتا ہے۔ اسی طرح ایک فکری مغالطہ یہ بھی دیا جاتا ہے کہ آج کی دنیا میں موجود سرمایہ دارانہ نظام میں کرپشن اس کا لازمی حصہ ہے اور ہمیں اس پر سمجھوتا کرکے ترقی کے عمل کو آگے بڑھانا چاہیے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں احتساب کا عمل کمزور احتساب پر مبنی ادارے سیاسی مداخلتوں کی وجہ سے شفافیت کا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اسی بنیاد پر یہاں جمہوریت بھی شفافیت کے انداز میں اپنا ساکھ قائم نہیں کرسکی۔ کیونکہ جب ریاست اور حکومت کا مجموعی نظام کرپشن پر مبنی سیاست کے بارے میں سیاسی سمجھوتوں کا شکار ہوجائے یا ہم اس کرپشن کی سیاست نظام کا حصہ بنالیں تو پھر بہتر سے بہتر سیاسی اور معاشی سطح کی پالیسیاں بھی ہمیں کچھ نہیں دے سکے گی۔ ماضی میں ہمارے ریاستی نظام نے بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے خلاف اور نواز شریف سمیت بے نظیر بھٹو نے بھی ایک دوسرے کی مخالفت میں احتساب کو سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا۔ جنرل پرویز مشرف نے احتساب کے نظام کو موثر بنانے کے لیے نیب کا ادارہ بنایا جسے احتساب کے بجائے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے خلاف استعمال کیا اور اسی بنیاد پر عمران خان کی بھی حمایت میں دونوں بڑی جماعتوں کے لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ پی ٹی آئی کی سیاست کا حصہ بنیں۔ عمران خان کے دور میں بھی نیب نے وہی کچھ کیا جو احتساب کے نظام کے خلاف تھا۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف احتساب کے نام پر سیاسی انتقام لیتے رہے ہیں بلکہ اس کھیل میں ہم نے پس پردہ قوتوں کا بھی ساتھ دیا یا انہوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت میں وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف نیب کا خاتمہ کریں گے بلکہ ایک شفاف اور خود مختار احتساب پر مبنی ادارہ بنائیں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا اور سیاسی حکومتوں کی اپنی کمزوریوں اور سیاسی سمجھوتوں کی وجہ سے نیب جیسا ادارہ آج بھی موجود ہے۔ اب یہ ادارہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اور اس کھیل میں ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی حصہ دار ہیں یا عمران خان دشمنی میں اس جعلی احتساب کو بھی قبول کرکے اس کی حمایت کی جارہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں جعلی اور فرسودہ احتساب کے کھیل کا حصہ رہی ہیں اور اسی کھیل کی بنیاد پر ان کی اپنی کرپشن کو بھی تحفظ ملتا رہا ہے۔

بدقسمتی سے اس کھیل میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور دیگر اداروں کو ڈھال بنایا گیا یا انہوں نے سیاسی نظام کو ڈھال بناکر سیاست، جمہوریت اور ہماری اخلاقی ساکھ کو بری طرح مجروع کیا ہے۔ جب سیاست اور جمہوریت کا کھیل دولت اور پیسے کا کھیل بن جائے گا یا ہم اسے کارپوریٹ جمہوریت یعنی منافع پر چلنے والے کاروبار سے جوڑ دیںگے تو پھر اس ملک میں جمہوریت کا کھیل دولت مند اور کاروباری طبقہ کا کھیل بن جائے گا۔ عوام کو پہلے بھی جمہوریت کے نام پر استعمال کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے جو بھی جماعت اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کے سہارے آتی ہے وہ اسی کی مدد سے اپنے اور اسٹیبلشمنٹ مخالف قوتوں کے خاتمہ میں خود کو سہولت کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت اور عدلیہ گٹھ جوڑ نے بنیادی طور پر اس ملک میں کرپشن پر مبنی عملی سیاست کو تحفظ دیا ہے اور جب بھی کرپشن کے خاتمہ کی بات کی جاتی ہے تو یہ ہی بڑی طاقتیں کرپشن پر مبنی سیاست کو تحفظ دینے کے لیے سیاسی گٹھ جوڑ کرلیتی ہیں۔ ایک طرف ہمارا ریاستی یا حکومت کا فرسودہ گورننس کا نظام ہے تو دوسری طرف ہم کرپشن کو بنیاد بنا کر ترقی کرنے کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں۔ جو عالمی امداد ہمیں ملک کی ترقی اور محروم طبقات کی خوشحالی کے لیے دی جاتی ہے وہ بھی کرپشن کی نذر ہوجاتی ہے اور اسی وجہ سے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں سے اس ملنے والی عالمی امداد کا سیاسی اور معاشی آڈٹ کی بات بھی کی جاتی ہے۔ دنیا ہمارے مجموعی سیاسی اور معاشی نظام سمیت کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست پر سوالات اٹھا رہی ہے اور لوگ پوچھ رہے ہیں کہ دولت یا ریاستی وسائل کی لوٹ مار کے کھیل کا کون جوابدہ ہوگا۔

بدقسمتی سے اس ملک میں سیاسی تحریکوں میں کرپشن کی مخالفت کی جاتی ہے مگر سیاسی تحریکیں بھی اور خاص طور پر بڑی سیاسی جماعتیں کرپشن کے خاتمہ کا پاپولر نعرہ لگا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ تو کرتی ہیں مگر اقتدار کی سیاست میں ان کی بھی سیاسی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ اس لیے اگر پاکستان کو مستحکم سیاسی اور معاشی نظام سمیت انصاف پر مبنی نظام کی طرف بڑھنا ہے تو ہمیں اپنے مجموعی ریاستی اور حکومی نظام سمیت ادارہ جاتی نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوگی۔ لیکن یہ کام ایک مضبوط اور عوامی حمایت پر مبنی حکومت ہی کرسکتی ہے۔ کمزور سیاسی مخلوط حکومتوں یا سیاسی جوڑ توڑ یا اسٹیبلشمنٹ کے سہاروں کی بنیاد پر قائم کوئی بھی سیاسی نظام یا حکومت کرپشن کے خاتمہ میں کچھ نہیں کرسکے گی۔

ایک المیہ اس ملک کا اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد یا ادارے بھی ہیں جو کرپشن کو ختم کرنے کے بجائے خود طاقت ورحلقوں کے ساتھ مل کر کرپشن کی سیاست کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے کرپشن کے خاتمہ اور احتساب کے شفاف نظام کو یقینی بنانے کے لیے اس ملک میں ایک بڑی جنگ درکار ہے اور یہ جنگ آج کی نئی نسل ہی لڑسکتی ہے اور اسی کو اس جنگ کی عملی قیادت بھی کرنی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ ہمیں کرپشن سے پاک اور بے لاگ احتساب کا پاکستان چاہیے۔