لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) وفاقی حکومت سے اختلاف کی بنیاد پر خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا کوئی جواز موجود نہیں، ایسا کوئی بھی اقدام بڑی غلطی اور سیاسی حماقت ہو گی‘ وفاق اور صوبوں میں اختلافات کوئی نئی بات نہیں تاہم دونوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو آئین میں طے شدہ حدود کا پابند بنائیں‘ غیر جمہوری اندھی طاقت کے استعمال کا نتیجہ سیاسی شہادت کی صورت میں سامنے آتا ہے‘ سیاسی بحران کا پائیدار حل مذاکرات ہی سے ممکن ہے‘ سیاست دانوں کو دشمنیاں نبھانے کے بجائے ملک کی فکر کرنا چاہیے‘ وفاقی حکومت دراصل گورنر راج لگا نہیں سکتی ورنہ اب تک لگا چکی ہوتی، مستقبل میں بھی اس کا امکان نہیں کیونکہ جو طاقتیں سارا نظام چلا رہی ہیں، صوبہ خیبر کے حکمرانوں کے ان سے اچھے رابطے قائم ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مختلف سیاسی و آئینی تجزیہ کاروں نے ’’جسارت‘‘ کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا صوبہ خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ کا کوئی جواز ہے؟‘‘ جسارت نے یہ سوال جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اسد منظور بٹ اور ایکسپریس میڈیا گروپ لاہور کے بیورو چیف اور سیاسی تجزیہ کار محمد الیاس کے سامنے رکھا تو لیاقت بلوچ کا کہنا تھا کہ ملک کے موجودہ کشیدہ حالات اور مسلسل جاری سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں کے پی کے میں گورنر راج کا
نفاذ بہت بڑی غلطی اور سیاسی حماقت ہو گی‘ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات اور کشیدگی کوئی نئی بات نہیں‘ ماضی میں بھی پنجاب اور وفاق میں کشیدگی سیاسی حقیقت رہی ہے‘ پنجاب میں گورنر راج کا نفاذ ہوا اور بلوچستان میں بھی گورنر راج کے نفاذ کا آئینی حق استعمال کیا گیا تھا لیکن ایسے اقدامات سے حالات سدھرنے کے بجائے زہریلی سیاسی تقسیم، انتشار اور صوبائی تعصبات نے شدت اختیار کی۔ وفاق اور خیبر پی کے کے درمیان تعلقات کی انتہا پسندی کی وجوہات بہت واضح ہیں‘ 2024ء کے انتخابات میں نتائج کی چوری اور عوام کے حقیقی مینڈیٹ کے برعکس انتخابی نتائج اور تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور مقدمات پر تحریک انصاف کا موقف وجہ تنازع ہے، اصل ضرورت یہ ہے کہ آئین، جمہوریت اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے مطابق سیاسی تنازعات کا حل تلاش کیا جائے‘ آئین کا حلیہ بگاڑنے، بدنیتی پر مبنی قانون سازی اور حکومتی و ریاستی طاقت سے سیاسی کارکنان کے بنیادی سیاسی، آئینی، جمہوری حقوق اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنا صریحاً آمرانہ روش ہے‘ سیاسی بحران کا سیاسی حل قومی قیادت کے مذاکرات ہی سے ممکن ہے‘ خیبر پی کے میں گورنر راج کا نفاذ، تحریک عدم اعتماد سے بھی بڑا احمقانہ اقدام ہو گا‘ غیر آئینی اقدامات سے گرتی ہوئی دیواروں کو سہارا نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ غیر جمہوری اندھی طاقت کے استعمال کا نتیجہ سیاسی شہادت کی شکل میں برآمد ہوتا ہے، اس لیے لازم ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں خود کو آئینی حدود کی پابند بنائیں۔ اسد منظور بٹ نے کہا کہ صوبہ خیبر پی کے میں گورنر راج کا قطعی کوئی جواز نہیں‘ حکومت اور اپوزیشن کو ملک کی فکر کرنا چاہیے مگر وہ دشمنیاں نبھا رہی ہیں‘ بڑی مشکل سے ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوتی دکھائی دے رہی ہے مگر وفاقی حکومت کے اقدام نئے مسائل کو جنم دے رہے ہیں‘ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ عدل کا ہے‘ حکومت نے عدلیہ کے دانت نکال دیے ہیں‘ 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جج کو مستری بنا دیا گیا ہے‘ جج پہلے جی ایچ کیو اور پھر ایوان صدر کی طرف دیکھیں گے، یوں عدلیہ کا بیڑہ غرق کر دیا گیا ہے‘ جہاں نظام عدل ناکارہ ہو گا وہاں گورنر راج ہو یا وزیر اعلیٰ کی حکمرانی، کچھ بھی نہیں چل پائے گا۔ محمد الیاس نے رائے دی کہ صوبہ خیبر پی کے میں ابھی گورنر راج کا جواز موجود نہیں البتہ جب حکمران چاہیں گے تو جواز تراش لیں گے‘ صوبائی حکومت اور اسمبلی میں کوئی مسئلہ نہیں‘ معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت گورنر راج لگا نہیں سکتی ورنہ اب تک شاید لگا چکی ہوتی، اس وقت وفاقی حکومت کے پاس صبر اور شکر سے وقت پورا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، جو نظام چلا رہے ہیں ان کے خیبر پی کے میں بھی رابطے اچھے ہیں۔