ملک میں آئی ٹی کی ترقی کا مکمل بل قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے اور امید یہی ہے یہ بل منظور بھی ہو جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے اس بل کے نفاذ کے بعد اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ انٹر نیٹ رفتار پر بھی حکومت توجہ مرکوز کر ے تاکہ اس سیکٹر میں روزگار میں اضافہ ہو اور ملکی کمپنیوں کو بیرون ِ ملک پرواز کی ضرورت نہ ہو۔ وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 پیش کریں گی۔ اس سیکٹر میں قانون سازی پاکستان کو ایک ڈیجیٹل قوم میں تبدیل کرنے میں مدد دے گی، جس سے ڈیجیٹل سوسائٹی، ڈیجیٹل معیشت اور ڈیجیٹل گورننس کو ممکن بنایا جا سکے گا‘۔ لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہے آئی ٹی سیکٹر کو ملکی سیاست سے نجات دلائی جائے۔ وفاقی کابینہ نے معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے اور ای گورننس کو فروغ دینے کے لیے جون میں بل کی منظوری دی تھی۔
ذرائع کے مطابق حکومت 2 نئے اداروں کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے جن میں وزیراعظم کی سربراہی میں نیشنل ڈیجیٹل کمیشن (این ڈی سی) شامل ہے، جس میں چاروں وزرائے اعلیٰ اور اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور پی ٹی اے جیسے اداروں کے سربراہان شامل ہوں گے جبکہ دوسرا ادارہ پاکستان ڈیجیٹل اتھارٹی ہوگا جس کی سربراہی سرکردہ صنعتی ماہرین کریں گے۔ لیکن اس سلسلے میں ضروری یہ ہے پہلے چلنے والے اداروں کو فعل کر دار ادا کرنے سے روکنے کے بجائے ان کی کردگی میں اضافے کے حکومت اپنے بنیادی کاموں کو درست کرے۔
نئے نظام کی ایک اہم تجویز ہر شہری کے لیے ایک ڈیجیٹل شناخت ہے۔ اس میں کسی فرد کی صحت، اثاثوں اور دیگر معاشرتی اشاروں کے بارے میں اعداد و شمار شامل ہوں گے۔ حکام کے مطابق بل کا مقصد شناختی کارڈ، لینڈ ریکارڈ، برتھ سرٹیفکیٹ اور ہیلتھ ریکارڈ کا انتظام کرنے والے محکموں تک رسائی کو بہتر بنانا تھا۔ یہ سب کچھ حکومت کی ضرورت ہو گی لیکن عام فرد کے لیے روزگار اہم ہے ۔ ڈیجیٹلائزیشن کی کوششوں میں سرکاری محکموں کو بھی ہدف بنایا جائے گا، جنہیں خدمات کو بہتر بنانے کے لیے اہداف پر مبنی منصوبے دیے جائیں گے۔
ڈیجیٹل ماہر کا کہنا ہے کہ ’اس بل کی بنیادی غرض گلوبل ڈیجیٹل کمپیکٹ کے مقصد کی حمایت کرنا اور پاکستان کے ڈیجیٹل پبلک انفرا اسٹرکچر (ڈی پی آئی) کی تعمیر کو ممکن بنانا ہے اور یہ بھی ضروری ہے۔ ڈی پی آئی کو ’’ٹیکنالوجیز کئی ایک اسٹیک‘‘ کے طور پر ہے جس میں 3 اہم ڈیجیٹل سسٹمز بشمول ڈیجیٹل آئی ڈی، یونیورسل پیمنٹ انٹرفیس اور ڈیٹا ایکسچینج شامل ہیں۔ امید ہے کہ اسٹیک ممالک کو ’ڈیجیٹلائزیشن کو تیز کرنے اور دہائیوں تک ترقیاتی اقدامات کو تیز کرنے کے قابل بنایا جائے گا۔
اس سوال پر کہ اس پروگرام کے نفاذ کے لیے نئے اداروں کی ضرورت کیوں ہے جبکہ اسی طرز کے متعدد ادارے پہلے ہی کام کر رہے ہیں؟ پر آئی ٹی ماہر کاکہنا تھا کہ اس پیمانے کی ڈیجیٹل تبدیلی، جس میں متعدد ادارے، محکمے اور باڈیز شامل ہیں، کوئی ایک وزارت نہیں کرسکتی۔ انہوں نے بتایا کہ ’ اقوام متحدہ کے ای گورننس انڈیکس میں سرفہرست 15 میں سے 11 ممالک میں قومی ڈیجیٹل تبدیلی کے لیے ’سپر منسٹریل باڈی‘ موجود ہے، اسی لیے ان اداروں کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ این ڈی سی ڈیجیٹل ایجنڈا کے حوالے سے رہنمائی کرے گی جبکہ ڈیجیٹل اتھارٹی ڈی پی آئی کے قیام کے منصوبے پر عملدرآمد کرے گی۔ این ڈی سی اس منصوبے کی منظوری دے گا اور ڈی پی آئی پر مشتمل ان اہم ڈیجیٹل نظاموں کی تعمیر کے لیے ہر سطح پر ایگزیکٹو سپورٹ کو یقینی بنائے گا۔ دونوں سپر باڈیز منصوبہ بندی کے عمل کی قیادت کریں گی جبکہ اس پر عمل درآمد موجودہ ادارے کریں گے۔
اس سلسلے عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ڈیجیٹل آئی ڈی اب بھی نادرا کے دائرہ اختیار میں رہے گا لیکن اسے اپ گریڈ کیا جائے گا اور اسے ڈیٹا ایکسچینج لیئر اور یونیورسل پیمنٹ انٹرفیس سے منسلک کیا جائے گا۔ اسی طرح نادرا، ایف بی آر، ایس ای سی پی، اسٹیٹ بینک، بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں، بینکس وغیرہ اسٹیک کو ڈیٹا فیڈ کریں گے۔
ان تجاویز میں سے ایک یہ ہے کہ ڈیجیٹل والیٹ کے ذریعے معیشت کو باضابطہ بنانے میں تیزی لائی جائے، ذرائع کے مطابق اس سے لوگوں کو بینک سے قرض حاصل کرنے اور سرکاری اسکیموں کا حصہ بننے میں مدد ملے گی۔ ان اقدامات سے غریبوں، اقلیتوں اور خواتین کی مساوی رسائی اور شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا اور ایک مضبوط مسابقتی سفید معیشت تشکیل دی جائے گی۔
اس اقدام سے تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو ’’تیز ترین وسعت‘‘ ملے گی اور لوگوں کو معاشی مواقع سے منسلک کیا جائے گا جبکہ ڈیجیٹل ادائیگیوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس منصوبے میں ایک ’سِوک لیب‘ کا بھی تصور پیش کیا گیا ہے تاکہ ’نوجوانوں کو ان کی تکنیکی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی ترغیب دی جاسکے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ لیب صحت کی دیکھ بھال، تعلیمی ٹیکنالوجی، زرعی ٹیکنالوجی اور آب و ہوا کی تبدیلی کے شعبوں میں سرگرم مصنوعی ذہانت پر مبنی اسٹارٹ اپس کی مدد کرے گی۔
نیا ڈیجیٹل آئی ڈی پروگرام متحدہ عرب امارات، بھارت اور ایسٹونیا میں نافذ العمل اقدامات کی طرز پر ہوگا۔ ایسٹونیا، جسے ڈیجیٹل آئی ڈی پروگرام کے نفاذ میں عالمی فاتح سمجھا جاتا ہے، نے ہر شہری کے لیے الیکٹرانک آئی ڈی یا ای آئی ڈی کارڈ لازمی قرار دے دیا ہے۔
یہ نظام ایک ذاتی شناختی کوڈ پر مبنی ہے جو پولیس، صحت کے حکام، آبادی رجسٹر، آئی ڈی اور ٹیلی کام سروس جیسی مختلف خدمات تک رسائی حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
2002 میں ای آئی ڈی اسکیم کے نفاذ کے بعد سے ووٹنگ، ہیلتھ ریکارڈ، رہائشی اجازت نامے اور شادی جیسی خدمات کو ڈیجیٹل بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرز کا ایک ڈیجیٹل نظام متحدہ عرب امارات میں ’یو اے ای پاس‘ کے نام سے کام کر رہا ہے، جو شہریوں اور رہائشیوں کو ’12 ہزار سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں‘ کی طرف سے پیش کردہ خدمات تک رسائی کے قابل بناتا ہے اور انہیں دستاویزات پر ڈیجیٹل دستخط کرنے کی سہولت مہیا کرتا ہے۔
تاہم ماہرین ڈیجیٹل حقوق نے اس بارے میں مزید وضاحت کا مطالبہ کیا ہے کہ حکومت مرکزی ڈیٹا سسٹم کو کس طرح محفوظ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ڈیجیٹل حقوق کے ماہر کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل حقوق کی تنظیموں، تعلیمی اداروں اور دیگر شعبوں کے ساتھ کثیر شراکت داروں کے ساتھ تبادلہ خیال کا مطالبہ کیا۔ ڈیجیٹل شناخت سے متعلق قانون سازی کے لیے ایک کثیر اسٹیک ہولڈر فارمیٹ میں ہونا چاہیے، اسے جلد بازی میں پارلیمنٹ کے ذریعے آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ ڈیٹا اسٹیک ’لوگوں کو رضامندی کا اختیار دے گا کہ کون ان کا ڈیٹا استعمال کرسکتا ہے، ڈیجیٹل تحفظ پیدا کرے گا اور استحصال کو ختم کرے گا‘۔ علاوہ ازیں، قومی اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق سینیٹ سے منظور شدہ نیشنل فارنزک ایجنسی بل 2024 بھی ایوان زیریں میں پیش کیا جائے گا۔
یہ سب کچھ قانون کے مطابق چلایا جائے تو درست ہو گا لیکن اگر اس کو لاقانونیت کے طور پر استعما ل کا بھی خدشہ ہے جس سے عام لوگوں کی مشکل میں اضافے ہو گا۔ حکومت کو اس کو بہتر انداز سے چلانے لیے عوام تک رسائی کو آسابنانا ہوگا۔