عربی سامی زبان ہے۔ زندہ، مضبوط ومتحرک زبانوں میں عربی زبان کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ نزولِ قرآن اس کا طرہ ِ امتیاز اور فصاحت وبلاغت اس کی اہم خاصیت ہے۔ مسابقت، ثِبات اور جانفشانی اس کے تاریخی پہلو ہیں جن کی بدولت اس نے دینی، ادبی، لسانی، علمی، تاریخی، ثقافتی اور سائنسی میدانوں میں ہمیشہ مثبت وتعمیری کردار ادا کیا ہے۔ زبانوں کے اختلاط، باہمی تداخل، مزاحمت، تغیرات اور انقلابات کی کشمکش کے باوجود عربی زبان اپنی اصل پہچان اور شناخت کو ہر دور میں محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ دور جدید میں عربی زبان کو نِت نئے علوم وفنون اور سائنسی ایجادات وٹیکنالوجی کا سامنا ہے جس سے یہ بڑی فنی مہارت کے ساتھ نبرد آزما ہونے کی کوشش کررہی ہے۔ عربی زبان وادب اور تہذیب وثقافت کا ایک شاندار ماضی ہے۔ اس کا ادبی وثقافتی سرمایہ انسانوں کے لیے علم کا خزانہ ہے۔ عربی زبان بذات خود اپنے اندر اتنی وسعت، صلاحیت ولچک رکھتی ہے کہ یہ ہر دور میں پیدا ہونے والی جدید فنی وسائنسی ایجادات کے ساتھ قدم بقدم چل سکے۔ اْس کے ساتھ اپنے آپ کو ہم آہنگ کرے اور نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنے بولنے اور پڑھنے والوں کو لسانی سہولتیں فراہم کرسکے۔
اس وقت عربی زبان دنیا کی مقبول ترین زبانوں میں شامل ہے۔تقریباً ۴۵۰ ملین سے زیادہ افراد کی یہ مادری زبان ہے۔تقریباً ۲۵ ممالک میں یہ سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۷.۱ ارب سے زائد افراد بطور ثانوی زبان اس کو سیکھ کر زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر عربی اقوام متحدہ کی دفتری زبانوں میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور افریقی یونین وغیرہ کی بھی یہ سرکاری زبان ہے۔ اس کے علاوہ دینی، سیاسی، معاشی، معاشرتی، ادبی وثقافتی اور تعلیم وتربیت کے لحاظ سے اس کو ایک عالمگیری مقام حاصل ہے۔
موجودہ دور میں عربی زبان کی ڈیجیٹلائزیشن وقت کی اہم ضروت ہے اس حوالے سے مختلف جائزے اور تبصرے شائع ہو رہے ہیں۔ یونیسکو جس نے باقاعدہ ۲۰۱۰ء میں ۱۸ دسمبر کو ’’عربی زبان کا عالمی دن‘‘ منانے کا اعلان کیا جس کے بعد پوری دنیا میں عربی زبان وثقافت کی اہمیت کو اْجاگر کرنے کے لیے یہ دن منایا جارہا ہے، اس کی حالیہ ۲۰۲۴ء کی رپورٹ کے مطابق: ’’عربی بہت زیادہ ثقافتی اہمت کی حامل ایک عالمی زبان ہے۔ اس کے باوجود، صرف ۳ فی صد آن لائن مواد عربی میں دستیاب ہے۔ جس کی رسائی صرف لاکھوں تک محدود ہے۔ ایمریٹس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق: ’’سائنسی مضامین کے تحت صرف ۱۰ فی صد، علمی اشاعت عربی زبان مں عرب دنیا میں شائع ہوتی ہے۔ یہ اشاعت ان شعبوں میں مہارت حاصل کرنے والے گریجویٹ محققین کی تعداد کے متناسب نہیں ہے۔ ۶۰ فی صد سے زیادہ عرب محققین مغربی جرائد میں غیر ملکی زبانوں میں اپنی اسٹڈیز شائع کرنے کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ اس بات کا یقین کیا جاسکے کہ ان کا مواد وسیع تر ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر طلبہ تک پہنچ رہا ہے۔ عربی میں شائع کرنے کی ان کی قابلیت کے باوجود خاص طور پر علوم کے ۸۳ فی صد محققین بھی موجودہ مواد کی کمی کی وجہ سے عربی میں شائع کرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔
موجودہ صورتحال کے پیش ِ نظر یونیسکو نے اس سال عربی زبان کا عالمی دن بعنوان:’’عربی زبان اور مصنوعی ذہانت: ثقافتی ورثے کا تحفظ اور جدت کا فروغ “Arabic Language and AI: Advancing Innovation while Preserving Cultural Heritage” کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI) بلاشبہ عصر حاضر کی تیز ترین اور اْبھرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے جس کے مثبت اور بروقت استعمال سے ہم انسانی زندگی میں بہتری اورآسانیاں پیداکرسکتے ہیں۔ زبانوں کی تاریخ، اْن کا دستاویزاتی تحفظ، سیکھنے سکھانے کا عمل، فہم وادراک، باہمی تداخل اور ثقافتی ورثہ کے تحفظ کے لیے ماہرین زبان اور مصنوعی ذہانت کے محققین کا باہمی اشتراک وتعاون وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عربی زبان کے ادبی، لسانی وثقافتی سرمایہ کی ڈیجیٹلائزیشن نئی ٹیکنالوجی کی دنیا کے تصور میں اہم سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔ عربی زبان جس کا اپنا منفرد زبانی نظام ہے، حروف تہجی، اصوات، الفاظ سازی، قواعد، مختلف لہجے وتلفظ کا فرق اور وسیع وتنوع ذخیرہ الفاظ ہیں۔ ان شعبوں کے تحفظ وترقی اور درست نتائج وتجزیہ اخذ کرنے کے لیے ٹیکنالوجیز کو استعمال کرنا محققین، زبان وٹیکنالوجی کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
محققین کی جانب سے مصنوعی ذہانت عربی زبان کے مختلف شعبوں میں استعمال کی جارہی ہے۔مثال کے طور پر قدرتی زبان کی پروسیسنگ (NLP) کے ذریعے مشینی ترجمہ ٹولز، متون کی شناخت اور نقل کی تیاری، لہجوں کا فہم وادارک، چیٹ بوٹس، ورچوئل اسسٹنس، خودکار خبریں، اشتہارات، ای لرننگ لائبریریاں، اسلامک اپلیکیشنز، تعلیمی وتحقیقاتی ٹولز، مخطوطات، ادبی اصناف اور ثقافتی روایاتی میلوں اور تقریبات کی دستاویزاتی طور پر تیاری۔ تاہم محدود عربی سرمایہ (ڈیٹا) اور وسائل کے ساتھ ساتھ غیر منظم اور معیاری ڈیٹا کی عدم دستیابی AI سسٹمز کی ترقی واستعدادی صلاحیتوں میں رکاوٹ پیدا کررہی ہیں۔
اس کمی وڈیٹا کے بحران کو کم کرنے کے لیے سعودی عرب میں کنگ سلمان انٹرنیشنل اکیڈمی فار دی عربک لینگوئج نے ’’عربک انٹیلی جنس سینٹر‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ عربی زبان کی خودکار پروسیسنگ میں مہارت رکھنے والا یہ پہلا مصنوعی ذہانت کا مرکز ہے۔ اس مرکز میں ۵ تیز ترین لیبارٹریز شامل ہیں جو عربی زبان کی خدمت کے لے مصنوعی ذہانت کی تیکنک استعمال کرتی ہیں۔ کمپیوٹنگ کی اعلیٰ سطحوں تک پہنچنے کے لے ’’مصنوعی ذہانت کی لیبارٹری‘‘ اور ’’لسانی معاون‘‘ کام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ڈیٹا کی تیاری اور لسانی وسائل کی تعمیر کے لیے لیبارٹری عربی ڈیٹا خواہ تحریری ہو، آڈیو ہو یا بصری، لیبلنگ، پروسیسنگ یا تصویر کشی کو اکٹھا کرتی اور اس کے معیار کو یقینی بناتی ہے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات نے سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق بین الاقوامی مطبوعات کو عربی زبان میں پیش کرنے کی کوشش کی جس میں ایم آئی ٹی ٹیکنالوجی ریویو، مرساد المستقبل، نیشنل جیوگرافک عربی اور ہارورڈ بزنس ریویو عربیہ کے ترجمے شامل ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عربی زبان کے مختلف النوع ڈیٹا کو زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹلائزڈ کیا جائے تاکہ عربی زبان کے بیش بہا علمی خزانے سے دنیا مستفید ہوسکے۔ مختلف ممالک واقوام کے درمیان سماجی وثقافتی دوریاں ختم ہوں، باہمی ہم آہنگی، اتحاد واتفاق کی فضا قائم ہو، وسیع تجربے ومشاہدات کی روشنی میں دنیا کی بہتری وترقی کے لیے ہم اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔ پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے محققین اور ماہرین زبان کے درمیان تحقیقی اشتراک وتعاون کی ضرورت ہے۔ جامعات میں زبانوں اور مصنوعی ذہانت کے مشترکہ پروگرامات کا آغاز ہونا چاہیے۔ طلبہ وطالبات میں ترقی کی نئی راہوں کی نشاندہی کے لیے آگہی اور بیداری کی مہم کی ضرورت ہے۔ ورک شاپس، ٹریننگ سیشنز اس کا موثر ذریعہ ہیں۔ جامعات کی سطح پر تحقیقی مقالے، تصنیف وتالیف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔