عام معافی کا اعلان بھی ایک آپشن ہے

271

9 مئی کے واقعات جو ملزم بھی گرفتار ہوئے، مجرم ثابت ہونے پر انہیں سخت سے سخت سزائیں ملنی چاہئیں تا کہ آئندہ کوئی قانون کو ہاتھ میں لینے کی حماقت اور جرأت نہ کرسکے۔ 26 نومبر کو ڈی چوک پر جن لوگوں نے وفاق پر لشکر کشی اور دارالحکومت میں فساد پھیلانے کی کوشش کی انہیں بھی عبرتناک سزائیں دی جائیں تا کہ غیر ذمے دار سیاستدانوں اور سرپھرے سیاسی کارکنوں کو ہمیشہ کے لیے سبق مل جائے۔ بلوچستان کا ’’فوجی آپریشن‘‘ بھی اُس وقت تک جاری رہنا چاہیے کہ جب تک کوئی ایک بھی دہشت گرد کسی چٹان کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ قیدی سیاستدانوں کو عدالتی فیصلوں کے ذریعے جو بھی ریلیف مل سکتا ہے اُس پر کوئی اعتراض نہیں تاہم حکومت کسی بھی قیدی سیاستدان کو قطعاً کوئی رعایت نہ دے‘‘۔

بہرحال یہ سب ایک آپشن ہے جبکہ ایک ’’آپشن‘‘ دوسرا بھی ہے جو یقینا ’’مخلوط حکومت‘‘ کو پسند نہیں آئے گا البتہ ’’بااختیار قوتوں‘‘ کو اِس دوسرے آپشن پر ضرور غور کرنا چاہیے کیونکہ ہم میں سے کسی کی کسی سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں، ہم کسی کو اگر کوئی سزا یا ریلیف دے رہے ہیں تو یہ سب کچھ ’’پاکستان‘‘ کے لیے ہے اور اگر واقعی ایسا ہی ہے تو پھر ہم بھی اس دوسرے آپشن کا ایک سرسری سا جائزہ کیے دیتے ہیں ممکن ہے کسی کے کچھ پلے پڑ جائے۔

سزائیں دینا بہت ٹھیک بات ہے تاہم معافی دینا زیادہ بہتر بات ہے، بسا اوقات حکومت کی جانب سے ’’عام معافی‘‘ کا اعلان وہ کام کر جاتا ہے جو پھانسی گھاٹ کا جلاد بھی نہیں کرپاتا۔ حق ِ حکمرانی اُن اِنسانوں کا حق ہوتا ہے کہ جن کے اندر رحم، درگزر، برداشت اور معافی دینے کی صفات اور خوبیاں موجود ہوں۔ جرم جو بھی کرے گا وہ مجرم ہی کہلائے گا تاہم تمام مجرم ایک جیسے نہیں ہوتے بعض اوقات دوستوں، اتحادیوں اور وفاداروں سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ ریاست کے خلاف بغاوت کرنے والے سب باغی نہیں ہوتے بلکہ اِن میں سادہ لوح، مایوس اور ناراض لوگ بھی شامل ہوتے ہیں کہ جن کو اگر تسلی دی جائے، جان و مال سمیت عزت و آبرو کی ضمانت دی جائے تو یہ لوگ واپس قومی دھارے میں شامل ہوسکتے ہیں۔ لاپتا لوگوں کو عدالتوں میں پیش کردینے میں کیا حرج ہے۔ ضد اور ہٹ دھرمی سے معاملات مزید اُلجھ جائیں گے۔ حکومت کی رٹ بحال کرنے کے لیے کچھ وقت طاقت کا استعمال بھی ضروری ہے مگر زیادہ عرصے تک طاقت کا استعمال مسلح مزاحمت کو جنم دیتا ہے جس سے ریاست کمزور ہوجاتی ہے۔

وطن عزیز پاکستان کافی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ داخلی اور خارجی محاذوں پر ہر طرح کے چیلنجز منہ پھاڑے کھڑے ہیں۔ عوام پریشان اور نڈھال ہیں۔ دھمکیاں اور انتقام کے نعرے قومی وحدت کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ انتشار اور فساد بڑھتا جارہا ہے۔ ملی یکجہتی اور قومی اتحاد متاثر ہورہا ہے۔ قوم کو تقسیم در تقسیم کی طرف گھسیٹا جارہا ہے۔ بعض احمق سیاستدان دانستہ یا نادانستہ عوام اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے دشمن کے ایجنڈے کو تقویت مل رہی ہے۔ لہٰذا حالات کا موجودہ منظرنامہ اور ممکنہ طور پر پیش آمدہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’بااختیار قوتوں‘‘ کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ سیاستدانوں کی ترجیحات اور حرکات سے قطع نظر ہوتے ہوئے ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ’’عام معافی‘‘ دینے کے آپشن پر غور کیا جانا چاہیے کیونکہ اِس طرح سے نہ صرف قوم کو متحد کرنے بلکہ تمام سیاسی قوتوں کو ’’قومی دھارے‘‘ میں لانے سمیت ریاست پر عوام کے تمام طبقات کا اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت اور اپوزیشن رہنمائوں کو بغل گیر کرانے کا بھی یہ مناسب وقت ہے۔ امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے ’’عام معافی کا اعلان‘‘ ہمیں ایک پیج پر لاسکتا ہے۔ عام معافی کے اعلان سے ریاست کمزور نہیں مضبوط ہوگی جبکہ اداروں کا احترام اور جذبہ حب الوطنی بڑھے گا، انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوجائے گی، پاکستان کے دشمن کو شرمندگی اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مفاد پرست ٹولہ یقینا رعمل دے گا تاہم ’’عام معافی‘‘ کے جرأت مندانہ اور رحم دِلانہ فیصلے سے اِسے کائونٹر کیا جاسکتا ہے۔

اُمید ہے اِس دوسرے آپشن پر ضرور بر ضرور توجہ دی جائے گی۔ اللہ پاک وطن عزیز پاکستان کی حفاظت اور ہم سب کی مدد و رہنمائی فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین۔