تم ہی کہو یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

286

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حماس کو دھمکی دی ہے کہ اگر 20 جنوری کو میرے صدارتی منصب سنبھالنے تک اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو ایک قیامت ٹوٹ پڑے گی، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ غزہ جنگ کے بارے میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے بہت اچھی گفتگو ہوئی، جو ہو رہا ہے اس پر تبادلہ خیال کیا، ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے نیتن یاہو سے کہا ہے کہ میں 20 جنوری کو آجاؤں گا اس معاملے کو پھر دیکھیں گے، اپنی گفتگو کے دوران نو منتخب امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان کے صدارتی منصب سنبھالنے تک جنگ بندی کا معاہدہ نہیں ہوتا تو جو ہوگا قطعی خوشگوار نہیں ہوگا، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین جنگ روکنے کے لیے روسی صدر پیوٹن اور یوکرین صدر سے بات کروں گا، یہ جنگ بھی اب ختم ہونی چاہیے۔ ٹرمپ نے کہا کہ انہیں میدان جنگ میں خون سے لتھڑی ہوئی لاشوں کی تصاویر دکھائی گئیں جنہیں دیکھ کر انہیں 1861ء سے 1865ء تک امریکا کی خانہ جنگی یاد آگئی۔ امریکی صدر کا مذکورہ بیان اس امر کی کھلی نشاندہی ہے کہ امریکا اور عالمی طاقتوں کو انسانی حقوق، انصاف اور پر امن بقائے باہمی کے اصولوں اور تقاضوں سے کوئی سروکار نہیں، وہ طاقت کی زبان بولتے، سمجھتے اور بروئے کار لاتے ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کو 14 ماہ گزرچکے ہیں، بمباری کے نتیجے میں شہدت فلسطینیوں کی تعداد 43,341 تک جاپہنچی ہے، جبکہ 102,105 فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں،تین ہزار سے زائد بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا ہے، سیکڑوں بچے غذا و ادویات کی قلت سے ماؤں کی باہوں میں دم توڑ گئے ہیں، ہزاروں ٹن بارود برسا کر پورے غزہ کو ملیا میٹ کر دیا گیا ہے، مگر امریکی صدر کو یہ درندگی اور بہیمیت نظر نہیں آتی، امریکی صدر کہتے ہیں کہ: ’’انہیں میدان جنگ میں خون سے لتھڑی ہوئی لاشوں کی تصاویر دکھائی گئیں جنہیں دیکھ کر انہیں 1861 سے 1865 تک امریکا کی خانہ جنگی یاد آگئی‘‘، واہ چہ خوب گوید! غالباً اسرائیلی حکام نے اب اس نئے صدر کو بھی ایسی تصاویر دکھائی ہوں گی جو انہوں سے اس سے قبل جنگ کے آغاز میں پرانے صدر جوبائیڈن کو دکھائی تھیں، جسے دیکھنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے ایسی تصاویر دیکھی ہیں جن میں حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے بچوں کے سر قلم کیے گئے ہیں۔ بعد میں وائٹ ہاؤس نے وضاحت کی کہ صدر نے ایسی تصاویر خود نہیں دیکھیں، بلکہ میڈیا رپورٹس اور اسرائیلی حکام کے بیانات کی بنیاد پر یہ بات کہی تھی۔ ٹرمپ کہتے ہیں اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو قیامت ٹوٹے گی، کوئی ان سے پوچھے نہتے اور بے بس غزہ کے مسلمانوں پر اب تک جو توڑا جاتا رہا وہ کیا تھا؟، کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور۔ 7 اکتوبر 2023 سے جو کچھ گزرا ہے اور گزر رہا ہے وہ قیامت سے تو کسی طور کم نہیں، ظلم ستم، سفاکی اور شقاوت کے وہ کون سے حربے ہیں جو اپنی مطلب براری کے لیے اسرائیل نے استعمال نہیں کیے؟، ٹرمپ کا حالیہ دھمکی آمیزو لہجہ قطعاً حیرت انگیز نہیں، اسرائیل کے مظالم پر شتر مرغ کی طرح ریت میں سرچھپانا اور اس کی بے جاحمایت و وکالت امریکا اور مغربی طاقتوں کا پرانا وتیرہ ہے، یادش بخیر مونیکا لیونسکی کے ساتھ جنسی اسکینڈل میں ملوث پائے جانے والے سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے بھی ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر اسرائیل پر حملہ ہوا تو میں خود بندوق لیے ایک مورچے پر بیٹھ جاؤں گا۔ ٹرمپ یوکرین جنگ روکنے کے لیے روسی صدر پیوٹن اور یوکرینی صدر سے تو بات کرنے پر آمادہ ہیں اور اس جنگ کے خاتمے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں مگر غزہ میں جنگ بندی کرانے کو تیار نہیں، یہاں وہ غزہ کے مٹھی بھر افراد کو خاک میں ملانے کی خواہش رکھتے، امریکی صدر کا یہ اندازِ تخاطب، یہ رعونت اور ہیکڑی کھلم کھلا مسلم دشمنی کا آئینہ دار ہے، یہ طرزِ عمل خطے میں امن کے قیام کا نہیں آگ لگانے کا ہے۔ امریکی صدر کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا کے کئی خطوں کے نہتے عوام نے ان کے غرور کو خاک میں ملا یا ہے، اپنی زمین کی آزادی اور خودمختاری کے لیے نبرد آزما قوموں کو طاقت کے زور پر دبایا نہیں جا سکتا، قابض افواج کے خلاف مسلح جدوجہد کا حق خود اقوام متحدہ کا چارٹر انہیں فراہم کرتا ہے، اپنے حق کے لیے لڑنے والے نہیں دہشت گرد نہیں بلکہ وہ دہشت گرد ہیں جو معصوم عوام پر آگ کے گولے برسا رہے ہیں۔ عالمی برادری بالخصوص مسلم حکمرانوں کو امریکی صدر کے بیان کا نوٹس لینا چاہیے۔