معروف صحافی اور اینکر حامد میر نے ایک دفعہ اپنے پروگرام میں نواز شریف کی آرمی کے خلاف وہ کلپ چلادی جس میں وہ ایک انڈین چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ تو کہانیاں ہیں جو جرنیل بناتے ہیں جب وہ کسی منتخب حکومت کو گراتے ہیں فوج کا کام ملک چلانا نہیں ہے فوج کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ آئے دن جمہوری حکومتوں کو توڑتی رہے فوج نے تو پاکستان کو ایک مذاق بنادیا ہے۔ فوج کا کام ہے بیرکوں میں رہنا یہ کام نہیں کہ منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کرے، کبھی صدر کو گرفتار کرے، کبھی کسی جج کو دھکی دے۔ فوج کا کام ہے ملک کا دفاع کرنا۔ فوج کا یہ کام نہیں ہے جمہوریت کو گھر کی باندی بنا دے۔ یہ انٹرویو انہوں نے انڈین ٹو ڈے کے پروچاولہ کو دیا انہوں نے اور بھی باتیں کیں یہ چند لائنیں نمونے کے طور پر ہیں۔ سوشل میڈیا کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار جو کلپ نظر سے گزرے آپ دوبارہ تلاش کریں تو ملنا مشکل ہوتا اکثر تو ملتا ہی نہیں بہرحال ایک کلپ میں عمران خان کہہ رہے کہ آپ لیبیا کو دیکھیں، شام کو دیکھیں، عراق کو دیکھیں اور مصر کو بھی یہ مسلم ممالک انتہائی کمزور ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فوجیں ایسی طاقتور فوجیں نہیں ہیں، اسی لیے ملک شام میں کبھی روس بمباری کرتا ہے، کبھی امریکا بمباری کرتا ہے۔ آج ہمارا ملک پاکستان اگر مضبوط ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری فوج مضبوط ہے لہٰذا جو لوگ فوج کے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں وہ ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کا یہ بیان اس وقت کا ہے جب وہ ملک کے وزیر اعظم تھے اور نوز شریف نے ہندوستان کے اخبار جو انٹر ویو دیا ہے وہ اس وقت کا ہے جب وہ ملک کے وزیر اعظم نہیں تھے۔
یہ درج بالا دو سابق وزرائے اعظم کے بیانات ہیں۔ عمران خان کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد آئی وہ منظور ہوئی پھر عمران خان وزارت عظمیٰ سے معزول ہوئے تو انہوں نے بھی بعد میں جو بیانات دیے وہ فوج کی کچھ شخصیات کے خلاف تھے بہ حیثیت مجموعی انہوں فوج کے ادارے کے خلاف نہیں کہا لیکن نواز شریف نے جو کچھ کہا وہ پوری فوج کے بارے میں ان کے خیالات تھے اتنے خطرناک اور خوفناک بیانات کے بعد بھی انہیں چوتھی بار وزیر اعظم کا وعدہ کرکے لایا گیا اور وہ میانوالی کی نشست تو ہار گئے تھے اور رات گئے تک لاہور کی نشست بھی ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہار رہے تھے لیکن دوسرے دن انہیں فارم 47 کے ذریعے جتوا دیا گیا۔ ایک وقت تھا جب عمران خان وزیراعظم بننے کے بعد تین سال تک جب کچھ ڈیلیور نہ کرسکے تو وہ ہیرو سے زیرو بن چکے تھے اور ان کی پارٹی کے ایم این اے اور ایم پی اے ن لیگ کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کسی طرح اگلے انتخاب کے لیے ن لیگ انہیں ٹکٹ دینے کا وعدہ کرلے تو وہ تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ وزارت کی معزولی کے دوسرے دن عمران خان اپنے گھر میں بیٹھے سوگ منارہے تھے کہ اچانک ان کی نظر ٹی وی پر پڑی اور دیکھا کہ پورے ملک سے لوگ جن میں مرد خواتین نوجوان اور بچے تک تھے دیوانہ وار عمران خان کے حق میں نعرہ لگاتے ہوئے اپنے گھروں سے نکل آئے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کل کا زیرو دوسرے دن قوم کا ہیرو بن چکا تھا۔ ہماری قوم کی ذہنی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ ہیرو کو زیرو اور زیرو کو ہیرو بنانے میں دیر نہیں لگاتی۔ 14 مارچ 1977 سے چلائی جانے والی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کچھ ٹھنڈی اور بے جان سی ہوتی جارہی تھی پھر دس اپریل 1977 کو نواب زادہ نصراللہ خان مرحوم کی قیادت میں لاہور میں قومی اتحاد کا بہت بڑا جلوس نکلا جس میں فائرنگ ہوگئی اور دس سے زائد افراد شہید ہوگئے اسی کے بعد تحریک نے پھر زور پکڑا اور بھٹو کو تین شہروں میں مارشل لا لگانا پڑا لیکن آپ دیکھیے کہ ٹھیک نو سال بعد 1986 میں اسی اپریل کے مہینے میں جب بے نظیر اپنی جلا وطنی ختم کرکے لاہور ائر پورٹ پر اتریں تو پورا لاہو ان کے استقبال کے لیے امڈ کر آگیا تھا۔
عمران خان اپنی معزولی کے دوسرے دن اس طرح اپنے حق میں عوامی جذبات کو دیکھ کر خوش فہمی کا شکار ہوگئے اور پھر یہ سمجھنے لگے کہ ترکی کی طرح یہ لوگ میدان میں آجائیں گے اور فوج کے لیے مشکل کھڑی کردیں گے، دراصل بہت ساری برائیوں اور خامیوں کے باوجود قوم فوج سے محبت کرتی ہے اس لیے یہ خیال دماغ سے نکال دینا چاہیے۔ پھر ساٹھ دن کے اندر انتخاب کرانے کے لیے عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دیے، اپنی دونوں صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوئے لیکن انتخاب اپنے وقت پر نہ ہوسکے یہ بھی آئین کی خلاف ورزی تھی لیکن جن کی پشت پر اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد ہو انہیں کون ہاتھ لگا سکتا ہے۔ اس کے باوجود عمران خان کی مقبولیت روبروز بڑھتی جارہی تھی۔ فروری 2024 کے انتخاب میں تحریک انصاف کو روکنے اور عمران خان کو شکست دلانے کے لیے حکومت، اسٹیبلشمنٹ، الیکشن کمیشن اور عدلیہ نے کچھ نہیں کیا ان سے بلے کا نشان چھین لیا گیا اس کے باوجود لوگ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک دوسرے سے پوچھ کر اس حلقے میں عمران کے امیدوار کا نشان کون سا ہے، بڑی تعداد میں ووٹ ڈال رہے تھے۔ الیکشن کمیشن کے ریکارڈ میں سے اب بھی اگر فارم 45 نکال کر اس کا نتیجہ مرتب کیا جائے تو تحریک انصاف کی جیت واضح ہو کر سامنے آجائے گی۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ووٹ تو پولنگ اسٹیشنوں میں ڈالے جاتے ہیں لیکن نتائج کہیں اور مرتب ہوتے ہیں میرے نزدیک ملک کا اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ آج تک ملک میں کوئی بھی انتخاب دیانتدارانہ اور شفاف نہیں ہوئے بس ایک انتخاب کوئی ایسا ہوجائے جس میں امیدواروں کی نامزدگی آئین کی شقیں 62-63 کے مطابق ہو اور پولنگ اسٹیشنوں پر غنڈوں کا قبضہ نہ ہو اور پریزائڈنگ آفیسر ووٹوں کی گنتی کرکے نتائج کی دستخط شدہ کاپی امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کو دے اور وہی نتیجہ آر او کو بھیجا جائے۔
2013 میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان قبول تھے لیکن وہ باوجود کوششوں کے اتنے مقبول نہ ہوسکے کہ نواز شریف کے مقابلے پر آسانی سے جیت جاتے۔ کسی حد تک مقابلہ برابر برابر کا تھا اسی لیے ان عمران خان کا چار سیٹوں کو کھولنے کا مطالبہ تھا وہ نہیں مانا گیا۔ پھر انہوں نے 120 دن کا دھرنا بھی دیا جس میں انہوں نے خود یہ تاثر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے اس وقت بھی عمران خان قبول تھے پھر جب 2018 کے الیکشن ہوئے تو اس میں آر ٹی ایس یعنی رزلٹ ٹرانسفر سسٹم بٹھا دیا گیا
اور تحریک انصاف کو جتوا کر وزارت عظمیٰ دے دی گئی پھر ساڑھے تین سال تک ان کی قبولیت ان کی مقبولیت پر حاوی رہی پھر جب 2024 کے انتخاب ہوئے تو عمران خان اپنی مقبولیت کی معراج پر تھے اور ن لیگ قبولیت کی۔ پھر یہی ہو ا کہ فارم 47 کے ذریعے قبولیت مقبولیت پر حاوی ہوگئی۔ اب عمران خان بہت ہاتھ پیر مار رہے ہیں کہ کسی طرح انہیں قبولیت کی سند مل جائے لیکن وہ کامیاب نہیں ہو پارہے ہیں۔ اس چکر میں وہ جو کچھ کررہے ہیں اس سے روز بروز ان کے نمبر گھٹ رہے ہیں وہ اب بھی ملک کے مقبول لیڈر ہیں لیکن اپنی مستقل احتجاجی سیاست کی وجہ سے ان کی مقبولیت متاثر ہوسکتی ہے لہٰذا اس وقت اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ وہ اپنی مقبولیت کو برقرار بھی رکھیں اور اپنی جدوجہد بھی جاری رکھیں۔ جدوجہد اور مستقل احتجاج میں فرق ہے جدوجہد میں احتجاج کے علاوہ دیگر اقدامات بھی شامل ہیں۔