آخری حصہ
آزادی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو قومیں اسلاف کی کمائی کی ناقدری کریں، وہ اللہ کی نعمت سے محروم کردی جاتی ہیں۔ مہاراجا کی غلامی کے نظام میں جو تھوڑا بہت انفرا اسٹرکچر اور تعلیمی ادارے تھے، وہ سرینگر اور جموں تک محدود تھے۔ پورے آزاد خطے میں صرف ایک انٹر کالج اور چند اسکول تھے۔ پونچھ ریاست میں ایک ہائی اسکول تھا۔ چالیس کی دہائی میں عوامی تحریک کے نتیجے میں چند مزید ادارے دیے گئے۔ باغ اور پونچھ سے راولپنڈی جانے کے لیے کوہالہ اور کہوٹا تک پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔ مہاراجا کی خچروں کے لیے گھاس کٹائی کی بیگار لی جاتی تھی۔ ناروا ٹیکسوں کا بوجھ الگ تھا۔ رسل ورسائل کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔ پنڈی سرینگر واحد پختہ سڑک تھی لیکن آزادی کے بعد نظام ریاست استوار ہوا جس میں بے پناہ اصلاح احوال کی گنجائش موجود ہے۔ تعلیمی اداروں اور یونیرسٹیوں کی تعداد مقبوضہ کشمیر سے زیادہ ہے، سڑکیں، بجلی اور سوشل انفرا اسٹریکچر بہت بہتر ہے۔ پانچ ہزار کلومیٹر سے زائد پختہ سڑکیں اور بارہ ہزار کلو میٹر رابطہ سڑکیں موجود ہیں۔ بھارتی اعدادو شمار کے مطابق مقبوضہ ریاست کی فی کس آمدنی کم ترین سطح پر ہے۔ اس لیے کہ وہاں کی زراعت اور کاروباری مواقع بھارت نے تباہ کریے ہیں۔ مجاہدین اور حریت پسندوں کی چراہ گاہیں اور اہم زرعی رقبے ضبط کیے جارہے ہیں۔ کشمیری نوجوانوں کو پاسپورٹ تک کی بنیادی سہولت سے محروم رکھا گیا ہے۔ پاکستانی اداروں کے ڈگری ہولڈرز کی ڈگریاں ضبط کردی گئیں ہیں۔ پوری مقبوضہ ریاست سے محض چند ہزار افراد ہی سمندر پار جاسکے ہیں۔ پاسپورٹ حاصل کرنا کشمیریوں کے لیے ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ ترکی اور یورپ میں زیر تعلیم نوجوان بھارتی پالیسی کے خلاف ایک ٹویٹ بھی کر دیں تو ان کے پاسپورٹ منسوخ کر دیے جاتے ہیں۔
آزاد کشمیر کے لاکھوں افراد برطانیہ، یورپ، امریکا، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں برسر روزگار ہیں جو خطے میں خوشحالی کا ذریعہ ہیں جس کے نتیجے میں آزاد خطے کی فی کس آمدنی دیگر صوبوں سے زیادہ ہے۔ مقبوضہ کشمیر بینک میں ہزاروں نوجوان باروزگار تھے جسے مودی حکومت نے قبضہ میں لینے کے بعد سب کو فارغ کردیا ہے۔ کشمیری مسلمان تو خاص ہدف ہیں لیکن ہندوستانی مسلمانوں کا جینا بھی دوبھر کر دیا گیا ہے۔ بھارتی عدالت عظمیٰ کے جج کی رپورٹ جو سچر کمیشن کے نام سے معروف ہے کی رو سے بھارتی مسلمانوں کی وفاقی سروسز میں نمائندگی دو فی صد سے بھی کم ہے۔ حالانکہ آبادی کا تناسب سولہ فی صد کے قریب ہے۔ دفاعی سروسز میں تو نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ پاکستان میں کشمیری کمیونٹی گونا گوں مراعات کی حامل ہے۔ ہمارے مہاجرین قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں اور ریاستی نظام کا الگ سے حصہ ہیں۔ فوج میں پنجاب، خیبر پختون خوا کے بعد آزاد کشمیر کی نمائندگی ہے۔ تین اور چار ستارہ جنرل کشمیر سے بھی رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جو فارن سروسز اور کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں سنٹورس جیسی آسمان کو چھوتی عمارات اور بڑے بڑے تجارتی مراکز اور پلازے کشمیریوں کے ہیں بلکہ بقول سید علی گیلانی شہید ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔
پاکستان برصغیر کی پوری امت مسلمہ کی مشترکہ میراث ہے۔ بدقسمتی سے پا کستان کے خود غرض سیاستد انوں اور طالع آزما جنرلز اس کی حفاظت کرنے میں نا کام رہے اور ملک دو لخت ہو گیا۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں اگر شیخ عبداللہ بے تدبیری نہ کرتے تو جموں کشمیر پاکستان کے سر کا تاج ہوتا اور شیخ صاحب اور چودھری غلام عباس صاحب قائد اعظم کے پورے پاکستان کو قیادت فراہم کرتے۔ یوں برصغیر کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔ پاکستان جس قیادت کے بحرن سے د و چار ہے اسے کشمیری ہی سنبھال سکتے ہیں اور عظیم تر امت مسلمہ کی تعمیر میں کردار ادا کر سکتے ہیں جس کا خواب ایک عظیم کشمیری سپوت علامہ اقبال نے دیکھا تھا ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں سامان تنگی داماں بھی تھا
بہر حال تحریک آزادی کے تناظر میں بیس کیمپ کو حقیقی بیس کیمپ بنانا اور اسلام کا حقیقی عادلانہ معاشرہ قائم کرنا ہوگا۔ جہاں عدل اور میرٹ کی با لادستی ہو، تعصبات اور قبیلائی ازم سے نکلنا ہو گا، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے ذریعے سرمائے اور ایجنسیوں کے اثر سے پاک اجلے لوگوں کے انتخاب کو یقینی بنانا ہو گا، نیز آزاد خطے اور گلگت بلتستان کو آئینی اور وسائل کے اعتبار سے باوسائل بنانا ہوگا۔ بلدیاتی نظام کو باوسائل اور بااختیار بنانا ہوگا۔ لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو باروز گار بنانے کے لیے لائحہ عمل دینا ہو گا۔ حکومتی اخراجات میں کمی اور وسائل میں مزید اضافہ کرتے ہوئے تعمیر اور ترقی کے یکساں مواقع پیدا کرنا ہوں گے۔ عدالتی اور بیوروکریسی کے نظام کی اصلاح کرنا ہوگی تاکہ لوگوںکو بروقت انصاف ملے اور ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ سفارتی ریلیف اور مزاحمت کے ہر محاذ پر کشمیریوں کی پشتیبانی کا حق ادا کرنا ہوگا نیز پاکستان میں جاری بدمزہ صورت حال کا تدارک کرنا ہوگا۔ بھارت کی مثال پیش کرنا خوشگوار عمل نہیں ہے لیکن وہاں حال ہی میں انتخابات ہوئے۔ تمام جماعتوں نے نتائج تسلیم کیے۔ ستر کروڑ ووٹرز نے ووٹ ڈالے کہیں دھاندلی کا الزام نہ لگا۔ پاکستان میں فروری کے انتخابات میں جو کھلواڑ ہوا، اس کے نتیجے میں ساری دنیا میں بدنامی ہوئی فارم ۴۵ اور فارم ۴۷ کی حکومت سازی مذاق بن گئی۔ گن پوائنٹ پر ارکان پارلیمنٹ سے ووٹ حاصل کرتے ہوئے اسلام، عدل اور جمہوریت سے شدید بے وفائی کی گئی۔ گزشتہ انتخابات پر بھی اعتراضات وارد ہوئے اور نظام متنازع رہا۔ اس سلسلے کو ختم ہونا چاہیے۔ قومی قائدین اور ادارے ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی استغفار کریں اور آئین کے مطابق اپنی ذمے داریوں کو ادا کرنے کا عزم کریں نیز محض سیاسی اور سفارتی حمایت سے آگے بڑھ کر بطور فریق تحریک کشمیر کی مزاحمت کے جملہ محاذوں پر پشتیبانی کریں اور سابق سپہ سالار کے مشکوک کردار کے حوالے سے ایک اعلیٰ سطحی جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔ تمام معاملات کی چھان بین کرتے ہوئے حقائق سامنے لائے جائیں ان اقدامات کے نتیجے میں کشمیریوں کا اعتماد بحال ہوگا اور پا کستان سے وابستگی پختہ تر ہوگی۔