ایک لاوارث گولی

1104

چھبیس نومبر کو اسلام آباد کے وسط میں جو گولی بہت دھوم دھڑکے اور پیشگی دھمکی کے ساتھ چلی تھی وقت گزرنے کے ساتھ وہ لاوارث ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی اس کی اونر شپ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ گولی چلی ہی نہیں لاشیں گری ہی نہیں اب عالمی میڈیا کی پے در پے سامنے آنے والی رپورٹس کے باعث انکار کا یہ بیانیہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ اسلام آباد کی سڑکوں پر جو کچھ ہوا کیمرے کی آنکھ نے اسے محفوظ کر رکھا ہے۔ صرف ان روح فرسا لمحات ہی کو نہیں اس سے پہلے حکمرانوں اور ان کے صحافتی سہولت کاروں کی دھمکیاں اور اس کے بعد سو کھوپڑیاں کھولنے کے بے رحمانہ دعوے سب محفوظ ہو کر رہ گیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے کراچی میں درجنوں افراد کی موت کے بعد اسی ڈی چوک میں مکا لہراتے ہوئے کہا تھا کہ عوام نے اپنی طاقت دکھادی ہے۔ اس سے پہلے جنرل مشرف نے ہی اکبر بگٹی کو للکارتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایسی جگہ سے نشانہ بنایا جائے گا کہ پتا ہی نہیں چلے گا۔ اس کھلی دھمکی کے بعد اکبر بگٹی کی غار بیٹھ جانے، خودکش جیکٹ پھاڑنے کے افسانے تراشے گئے مگر جو دھمکی پرویز مشرف نے برسرعام دی تھی وہ محفوظ ہو چکی تھی۔ اکبر بگٹی تو دنیا سے چلے گئے مگر اپنے پیچھے بلوچستان کا ایک ایسا زخم چھوڑ گئے جو رواں برس ان کی انیسویں برسی پر بھی پوری طرح رستا رہا جب بی ایل اے کے لوگوں نے کئی مقامات پر منظم اور منصوبہ بند حملے کرکے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ گویا کہ انیس سال بعد بھی اب تک یہ زخم رستا چلا آرہا ہے۔

اکبر بگٹی کے قتل پر کشمیری راہنما سید علی گیلانی نے اس حکمت عملی کی مخالفت میں کئی بیانات دیے تھے جس کا جنرل پرویز مشرف نے اتنا برا منایا کہ جب ان کی دہلی میں ملاقات ہوئی تو دونوں کے درمیان خوب توتکار ہوئی اور اس کا آغاز ہی اکبر بگٹی کے تذکرے سے ہوا۔ جنرل مشرف نے ہاتھ ملاتے ہی علی گیلانی کو کہا آپ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں آپ کو اکبر بگٹی کے بارے میں بیان نہیں دینا چاہیے۔ جس کے جواب میں سید علی گیلانی نے کہا میں سمجھتا ہوں یہ پالیسی پاکستان کے حق میں اچھی نہیں بھارت اس صورت حال سے فائدہ اُٹھالے گا۔ اکبر بگٹی سے شروع ہونے والی تلخ ملاقات اس مکالمے پر ختم ہوئی آپ میری مخالفت کرکے کیا کرلیں گے میرے ساتھ بش اور بلیئر ہیں دنیا میرے ساتھ ہیں۔ نحیف کشمیری لیڈر یہ کہتے ہوئے محفل سے اُٹھ کر چلے گئے کہ آپ کے ساتھ بش اور بلیئر ہیں تو ہمارے ساتھ اللہ ہے۔

جنرل پرویزمشرف کی دھمکیوں کی طرح وزیر داخلہ محسن نقوی کی پانچ منٹ میں گولیاں چلا کر ڈی چوک میں سب کچھ ختم کرنے کی دھمکیاں بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ بش اور بلیئر کی حمایت پر اترانے والے جنرل پرویز مشرف جب اپنے حلقہ اثر اور عوام میں غیر مقبول ہوگئے تو پھر آخر میں امریکی صدر نے ان کا فون سننے سے انکار کر دیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں ہر دور میں طاقت کا ایک ہی مائنڈ سیٹ رہا ہے۔ طاقت ہی کو آخری حل اور ابدی سچائی سمجھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ طاقتور ایک آئینہ خانے کا مکین بن کر رہ جاتا ہے جہاں اسے چاروں طرف اپنا ہی سراپا، اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے اور پھر یہ اس کی نفسیات بن جاتا ہے۔

اسلام آباد میں طاقت نے اپنا وجود منوالیا مگر بات اب بہت دور تک چلی گئی ہے۔ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی اب اس معاملے کو سرد نہیں ہونے دے رہے۔ بیرونی میڈیا اسلام آباد کی اس رات کو اب مختلف ناموں سے یاد کرکے رپورٹس چلا رہا ہے۔ پاکستان کا میڈیا جس طرح گونگا بہرہ بن کر رہ گیا تھا اس کا نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ بھارتی چینل نے نمک مرچ لگا کر اس واقعے پر رپورٹنگ کی اور پاکستانیوں نے ان رپورٹس کو نہ صرف دیکھا بلکہ ان پر اپنے تبصرے بھی تحریر کیے۔ پاکستان کا میڈیا بشریٰ بی بی ڈی چوک کیوں گئیں؟ علی امین گنڈا پور کارکنوں کو چھوڑ کر مانسہرہ کیوں چلے گئے؟ کا راگ الاپ کر اپنے ناظرین کو اصل سوال سے دور رکھنے میں مصروف تھا۔ یہ سوال اپنی جگہ موجود تھے مگر اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس میں ان سوالات کی حیثیت ثانوی تھی۔ اصل اور بنیادی سوال یہی تھا کہ پرامن مظاہرین پر گولی کیوں چلی؟ گولی چلانے والوں کو شاید اس کی بین الاقوامی جہت کا اندازہ نہیں تھا اسی لیے محسن نقوی پانچ منٹ میں سب فشوں ہوجانے کی دھمکی دے رہے تھے اور عطا تارڑ ڈی چوک میں کچھ نہیں ہوا، کچھ بھی تو نہیں ہوا کی اداکاری کررہے تھے۔ الجزیرہ کا نمائندہ لائیو گولیوں کی آواز سن کر بتا رہا تھا کہ یہ کس ہتھیار سے نکلی ہے۔

اب چونکہ عالمی سطح پر اس واقعے کی گونج مسلسل سنائی دے رہی ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کی طرف سے اس پر ردعمل سامنے آنے لگا ہے اور اب یہ دھوم دھڑکے سے چلنے والی گولی لاوارث ہوتی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، مریم نواز اور اسحاق ڈار سب بین السطور اس کا سہرہ فوج کے سر سجاتے ہیں اور فوج دوبارہ یہ تاج آئینی سربراہ یعنی وزیر اعظم کے سر پر سجاتی ہے۔ آئینی طور پر اس کی ذمے داری حکومت پر ہی آتی ہے کیونکہ وزیر اعظم کے احکامات ہی سے ایسی کارروائی ممکن ہوتی ہے۔ حکومت جس کا جینا مرنا مالیاتی اثاثے سب کچھ بیرونی دنیا میں ہے شاید گولی کا یہ بوجھ اُٹھا کر زیادہ دور تک نہ چل سکے اور اس کی کوشش ہوگی کہ یہ سارا ملبہ ریاستی اداروں پر ڈال کر خود معصوم بن جائے۔ ابھی تک حکومت اگر مگر کے ساتھ ’’معرکہ ٔ ڈی چوک‘‘ کی فتح کا تاج اپنے سر سجانے میں متامل نظر آرہی ہے شاید انہیں بدلے ہوئے منظر میں یہ کانٹوں سے بنا تاج محسوس ہونے لگا ہے۔ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اگر اپنے فیصلوں کے نتائج اور عواقب کو ذہن میں رکھا جائے تو شاید اس طرح کے حالات پیدا ہی نہ ہوں مگر طاقت کے گھوڑے پر سوا ر لوگوں کو فیصلے کرتے وقت ان باتوں کا خیال کہاں رہتا ہے؟۔