حکومت نے کیپیسٹی پے منٹ کے حوالے سے شدید تنقید کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے آئی پی پیز سے نئے معاہدے کرنے کا ڈول ڈالا ہے مگر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی یہ کوشش ناکام رہی ہے کیونکہ نئے معاہدوں سے بجلی کے ٹیرف میں اب تک کوئی بھی اہم تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے اور یوں معاملات وہیں کے وہیں ہیں۔
اکتوبر میں حکومت نے پانچ آئی پی پیز سے نئے معاہدے کیے تھے مگر ٹیرف ٹس سے مس نہ ہوا۔ اب وفاقی کابینہ نے مزید آٹھ آئی پی پیز سے نئے معاہدے کیے ہیں۔ ان آئی پی پیز سے ملنے والی مجموعی بجلی 259 میگاواٹ ہے جو ملک میں بجلی کی مجموعی کھپت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں کوئی بنیادی تبدیلی رونما نہیں ہو رہی۔ زیادہ سے زیادہ ایک روپے فی یونٹ کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس سے زیادہ کمی کی گنجائش نہیں۔ یاد رہے کہ حکومت بجلی بنانے والے اداروں سے بجلی خریدے یا نہ خریدے، انہیں بھرپور قوت کے ساتھ بجلی تیار کرنے کے قابل رہنے میں مدد دینے کے لیے ادائیگی پوری کرتی ہے۔ حکومت کیپیسٹی پے منٹ کے نام پر سارا بوجھ عام صارفین پر منتقل کردیتی ہے جس کے نتیجے میں انہیں استعمال کی ہوئی بجلی کی بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس نگراں وزیر داخلہ و تجارت گوہر اعجاز کی طرف سے کیپیسٹی پے منٹ پر شدید نکتہ چینی کے بعد سے حکومت پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔ حکومت کے لیے فیس سیونگ کے طور پر نمائشی نوعیت کے اقدامات ناگزیر ہوگئے تھے۔ اب آئی پی پیز سے نئے معاہدوں کے نام پر عوام کی توجہ کیپیسٹی پے منٹ کے اشو سے ہٹائی جارہی ہے۔ اس وقت ملک میں 101 آئی پی پیز کام کر رہے ہیں۔ اُنہیں اُن کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے مطابق ادائیگی کرنے سے عام آدمی کو بجلی کے بل کی مد میں بہت زیادہ ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔