Game is Over

369

آرمی چیف جنرل سیّد عاصم منیر صاحب کی زیر صدارت گزشتہ روز منعقدہ 84 ویں دو روزہ فارمشین کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’’آزادی کی آڑ میں جھوٹ، نفرت اور معاشرتی تقسیم کا بیج بونے کا معاشرے سے خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ سیاسی اور مالی فوائد کے لیے خبریں پھیلانے والوں کی نشاندہی کرکے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ذاتی مفاد کے لیے معصوم شہریوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے اور تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کسی بھی کوشش کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا‘‘۔

مذکورہ کانفرنس کے اعلامیے میں جو کچھ کہا گیا وہ سو فی صد درست، حقیقت اور حقائق بھی یہی ہیں جو اعلامیے میں بتائے جارہے ہیں تاہم بعض واقعات اور شواہد ایسے بھی ہیں کہ جن کا تجزیہ کرنا ابھی باقی ہے۔ مثلاً پاکستان کے اندر اس وقت جو سیاسی اور معاشی بحران جاری ہے یا یہ کہ آئینی داروں کے اختیارات کے حوالے سے جو سنجیدہ نکات اٹھائے جارہے ہیں اس کا بھی ضرور جائزہ لیا جانا چاہیے کہ کہیں واقعی کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی یا ہورہی ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت قائم ہوئی اُسے اپنی ساکھ بحال کرنے میں مسلسل ناکامی کا سامنا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اگر 8 فروری کے انتخابات منصفانہ اور شفاف ہوتے تو آج جو بھی حکمران ہوتا اُسے عوام کا بھرپور اعتماد حاصل ہوتا۔ ’’غیر شفاف انتخابات‘‘ کروانا سب سے بڑی غلطی تھی۔ اس غلطی کا مرتکب کون ہوا اور مزید یہ کہ اِس غلطی کو بروقت دُرست کرنے کا اختیار کس کے پاس تھا؟ اِس کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے تھی جو کہ نہ ہوسکی اور اب تو وقت بھی گزر گیا۔

جھوٹی خبریں، اِنتشار اور افراتفری پھیلانا یقینا ریاست کے دشمنوں ہی کا ایجنڈا ہوسکتا ہے کیونکہ کوئی بھی محب وطن محض حصول اقتدار کے لیے وطن عزیز ’’پاکستان‘‘ کو تختہ مشق نہیں بنائے گا مگر ہم سمیت پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ جن اپوزیشن رہنمائوں پر مذکورہ الزامات لگائے جارہے ہیں اِن کا مدمقابل حکمران طبقہ بھی ایسی ہی غلطیوں کا ارتکاب کرنے میں ملوث ہے۔ حکمرانوں میں برداشت، تدبر، دور اندیشی، درگزر، رحم اور مفاہمت کا جذبہ دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بہت چھوٹے لوگ بہت بڑے مناصب پر براجم ہوچکے ہیں۔ ویسے بھی کیا یہ حقیقت نہیں کہ حکمران طبقے میں ایک بڑی تعداد اُن صاحبان کی ہے کہ جو کل تک ’’NAB‘‘ کو مطلوب تھے۔ نیب زدہ حکمران آخر کیوں اور کس سے خوفزدہ ہیں۔ نگراں سیٹ اَپ سے موجودہ اقتدار تک جو بھی عرصہ بنتا ہے اِس دوران عوام نے دیکھا کہ اپنے سیاسی مخالفین کو للکارنے اور سیاسی انتقام لینے کے علاوہ ملک اور قوم کی بھلائی کے لیے کوئی قابل ذکر کام یا پیش رفت نہیں ہوسکی۔

بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جاری دہشت گردی اور سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کی ریاست کے اندر ریاست کو کائونٹر اور کنٹرول کرنے کے لیے کیا ضروری نہیں تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں ’’گورنر راج‘‘ نافذ کردیا جاتا جبکہ سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا جاتا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حال کیا ہے، کیا کہیں کوئی ’’گڈ گورننس‘‘ کا کوئی ثبوت یا مثال موجود ہے؟۔ کرپشن، خیانت اور قومی خزانے سے لوٹ مار کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے۔ احتساب کا عمل کیوں روک دیا گیا، میگا کرپشن کیسز کی فائلیں کیوں بند ہوگئیں، نیب کے دانت اور ناخن کیوں اور کس نے نکال دیے؟ ملک میں جب لاقانونیت، افراتفری، بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی سمیت خوفناک بدامنی ہوگی تو اُس کا لازمی نتیجہ تو ایسا ہی نکلے گا جیسا کہ سامنے ہے۔ سیاستدان جس طرح سے ریاست کے لیے مسائل اور اپنے لیے وسائل پیدا کررہے ہیں اس پر عوام الناس ناراض اور مشتعل ہیں۔

جنرل صاحب… عوام دِل و جان سے پاک فوج کے ساتھ ہیں اور فوج سے بہت زیادہ توقعات رکھتے ہیں، عوام فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں تاہم فوج کو بھی عوام کے کندھے پر ہاتھ رکھنا چاہیے، فوج اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے والوں کو ہمیشہ کی طرح اب بھی مایوسی اور شرمندگی ہوگی، عوام جانتے ہیں کہ یہ قومی فوج ہے اور ہماری آزادی کی ضامن ہے۔ ناقابل تسخیر دفاع ہمارے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ سیاستدانوں نے قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کا جو گندا کھیل شروع کر رکھا ہے اب اسے ختم ہونا چاہیے، عوام چاہتے ہیں کہ سیاستدانوں کو صاف اور دو ٹوک الفاظ میں پیغام جانا چاہیے کہ ’’Game is Over‘‘۔

اللہ پاک وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین