شام میں نصف صدی پر محیط جبر کا خاتمہ ہوا اور مطلق العنان، جابر اور متکبر بشارالاسد حکومت کا خاتمہ ہوا۔ بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ پلیٹ میں رکھ کر حق نہیں ملتا بلکہ حق چھینا جاتا ہے۔ باغیوں کی فتح کے بعد بشارالاسد شام سے فرار ہوکر روس پہنچ گئے ہیں جہاں پیوٹن انتظامیہ نے انہیں اہل خانہ سمیت سیاسی پناہ فراہم کی ہے۔ شام میں پچاس سالہ آمریت کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہزاروں شامی مسلمانوں کو اذیت ناک قید سے رہائی حاصل ہوئی ہے۔ 2011 میں عرب بہار کے دوران شام میں عوامی احتجاج شروع ہوا جس میں عوام نے جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے مطالبات کیے تھے۔ چودہ سال تک اس احتجاج کو روکنے اور طاقت سے کچلنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا۔ اس خانہ جنگی میں لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں بے گھر، شام میں ہونے والی اس بغاوت اور تبدیلی میں اخوان المسلمین کا اہم کردار ہے۔ اخوان المسلمین ایک طویل عرصے سے شام میں تبدیلی کے لیے سرگرم ِ عمل تھی۔ اسرائیل بھی شام میں ہونے والے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گولان کے پہاڑوں کے بفرزون میں داخل ہوکر کئی علاقوں میں قابض ہوگیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اسرائیلی فوج کے گولان بفرزون میں موجودگی کو 1974 کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے بتایا کہ اسرائیلی فوج کم از کم تین مقامات پر موجود ہے۔ اس اقدام پر عالمی برادری نے اسرائیل سے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
شام میں اسد خاندان کی 53 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ایک تاریخی موڑ ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ عوامی احتجاج اور مزاحمت کے نتیجے میں آمرانہ حکومتوں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ شام میں اسد خاندان کی پچاس سالہ آمریت کا حیران کن طور پر صرف ایک ہفتے کی مزاحمت پر خاتمہ انقلاب کی نوید ہے۔ شام کے دارالحکومت میں سڑکوں پر حیات التحریر الشام کے مزاحمت کاروں نے نظم ونسق سنبھال لیا ہے۔ دارالحکومت دمشق میں باغیوں کے داخل ہونے کے بعد لاکھوں افراد نے مرکزی چوک میں جشن مناتے ہوئے آزادی کے نعرے لگائے۔
شام میں الاسد خاندان پچاس سال سے زائد عرصہ تک برسر اقتدار رہا، بشار الاسد کو اقتدار اپنے طاقتور طور فوجی والد سے وارثت میں ملا جو 1971 سے لیکرجون 2000 تک برسر اقتدار رہے۔ جولائی 2000 میں طب کے سابق طالب علم بشار الاسد شام کے صدر، بعث پارٹی سربراہ اور فوج کے کمانڈر ان چیف بن گئے۔ گیارہ سال کے بعد عرب بہار کے نتیجے میں شامی عوام جمہوریت کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلے تو بشارالاسد نے سخت کریک ڈائون کیا اور مخالفین کی اکثریت کو دہشت گرد قرار دیا اور اپنے مخالفین پر انہوں نے کیمیائی ہتھیار تک استعمال کیے۔ جنگ کے ماحول میں انہوں نے حکومت کے کنٹرول علاقوں میں انتخابات بھی کرائے جنہیں عوام کی اکثریت نے غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔ جنگ کبھی نہ جیتنے کے باوجود بشار الاسد اپنے پیروکاروں بشمول اقلیتی علوی سیاسی جماعت کی حمایت سے اقتدار پر محدود طور پرقائم رہے۔
شام کے وزیر اعظم محمد غازی الجلالی کا کہنا ہے کہ عوام کو تبدیلی سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے حالات جلد معمول پر آجائیں گے۔ ایک ڈیڑھ سال تک عبوری حکومت قائم کی جائے گی پھر انتخابات کرائے جائیں گے۔ بنگلا دیش کے بعد شام میں عوامی انقلاب ایک نوید ہے۔ موجودہ حالات امت مسلمہ کے حق میں بہتر ہوں ابھی قبل از وقت کچھ کہنا ٹھیک نہیں ہے۔ حالات تواس بات کا پتا دے رہے کہ مسلمانوں کو ان شاء اللہ جلد پوری دنیا میں غلبہ حاصل ہوگا اور کفر کا اندھیرا سمٹنے والا ہے امن کی صبح جلد طلوع ہونے والی ہے اس تبدیلی کو فرقہ واریت سے جوڑنے والے نادان ہیں مطلق العنان سنی یا شیعہ نہیں بلکہ جابر اور متکبر ہوتا ہے اور وقت نے ثابت کردیا کہ ایسے ظالم اور جابر حکمرانوں کا انجام ایسا ہی عبرت ناک ہوتا ہے۔ اللہ پاک ملک شام کے حالات بہتر کرے۔ اسرائیل امریکا گٹھ جوڑ اس آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں اور پورے مشرق وسطیٰ میں قتل وغارت گری کا بازار گرم کررہے ہیں۔ شام، عراق، مصر، لبنان اور یمن میں یہ کھیل عرصے سے جاری ہے اور ان کی منزل خاکم بدہن مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ ہے۔ ہمارے مسلم حکمرانوں کی اکثریت اب تک امریکا اور اسرائیل کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اور خون ِ مسلم پوری دنیا میں پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ مسلمان گاجر مولی کی طرح کاٹے اور مارے جارہے ہیں۔ مسلمان فرقہ واریت کی آگ میں جلتے ہی جارہے ہیں اسلام دشمن قوتوں کی خواہش ہے کہ مسلمان آپس میں تقسیم در تقسیم رہے اور آپس میں ہی لڑتے اور مرتے رہے اور ان میں کبھی اتحاد واتفاق نہ ہوسکے۔ شام کا انقلاب ایک بڑی تبدیلی کی نوید ہے۔ امت مسلمہ اور اس کے حکمرانوں کو اب ہوش کے ناخن لینے ہوں گے۔ بیداری کی لہر اب چل پڑی ہے بنگلا دیش کے بعد شام اور آگے آگے دیکھے ہوتا کیا ہے۔