جماعت ِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ آئین کی بالادستی کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، تمام حکومتوں اور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے، حکومت عدلیہ، پارلیمنٹ، افواج سمیت ہر ادارے کے بارے میں آئین میں ایک ضابطہ اور فریم ور ک موجود ہے جسے فالو کیا جائے۔ بلاشبہ آج ملک جس گرداب کا شکار ہے اور مملکت ِ خداداد کو داخلی اور خارجی سطح پر جن مسائل و مشکلات اور چیلنجز کا سامنا ہے اس سے نبرد آزما ہونے کا یہ نسخہ کیمیا ہے جو جماعت ِ اسلامی کے امیر نے اپنے دورہ ٔکراچی کے موقع پر کی جانے والی پریس کانفرنس کے دوران اربابِ اختیار اور طاقت کے مراکز پر براجمان افراد کو مشورے کی صورت میں دیا ہے۔ ونسٹن چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا کہ: ’’اگر آپ کسی قوم کی عدالتوں کو تباہ کر دیتے ہیں، تو آپ اس قوم کو تباہ کر دیتے ہیں، انصاف کے بغیر کوئی قوم قائم نہیں رہ سکتی، چاہے وہ جنگ میں کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ جب تک عدالتیں آزادانہ کام کر رہی ہیں، ملک کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہو سکتا‘‘۔ مگر ہمارے یہاں عدلیہ کی بالا دستی ہنوز ایک خواب ہے، ملکی اقتدار پر شب خون مار کر مسند ِ اقتدار پر قابض ہونے والے فوجی سورماؤں نے آئین اور عدلیہ کو بازیچہ اطفال بنائے رکھا اور ابھی تک عدلیہ طاقت ور حلقوں کے اثر سے باہر نہیں نکل سکی، ملک میں آئین شکنی کا عمل آئین کی تشکیل کے فوراً بعد ہی شروع ہوگیا تھا اور المیہ یہ رہا کہ آئین شکنی کے اس قبیح فعل میں سول و فوجی حکمرانوں، سیاسی جماعتوں حتیٰ کہ خود عدلیہ نے بھی حصہ بقدرِ جثہ اپنا کردار ادا کیا، ایک جانب جہاں فوجی حکمرانوں نے پے در پے آئین و قانون کی دھجیاں بکھیریں تو وہیں دوسری جانب سیاسی حکومتوں نے عدلیہ کو اپنا تابع مْہمل بنائے رکھا، ایسے میں سیاسی جماعتیں کیسے اور کیونکر آئین و قانون کا احترام کرتیں سو کسی نے عدالت کو کینگرو کورٹ قرار دیا اور کسی نے عدالت پر دھاوا بولا۔ مگر آئین شکنی کی سب سے تاریک روایت وہ ہے جو فوجی طالع آزماؤں نے ڈالی ہے، پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں نافذ ہوا لیکن 1958 میں اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کے ساتھ مل کر حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اسکندر مرزا نے آئین معطل کر دیا اور ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا، کچھ ہی دن بعد جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو بھی برطرف کر کے اقتدار خود سنبھال لیا اور آئین ختم کر دیا، ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خلاف مارچ 1977 میں حزب اختلاف نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا، سیاسی بحران کے نتیجے میں 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا، آئین معطل کر دیا گیا، اسمبلیاں تحلیل کر دی گئیں اور ضیاء الحق نے اقتدار سنبھال لیا۔ 12 اکتوبر 1999 کو فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیر ِ اعظم نواز شریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا، نواز شریف نے پرویز مشرف کو فوج کے سربراہ کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی، لیکن فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا، آئین معطل کر دیا گیا اور پرویز مشرف نے خود کو چیف ایگزیکٹو قرار دیا، 3 نومبر 2007 کو جنرل پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی اور آئین معطل کر دیا، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت کئی ججوں کو برطرف کر دیا گیا۔ یہ تو آئین سے کھلواڑ کی وہ مثالیں ہیں جو فوجی آمروں نے قائم کی ہیں مگر خود عدلیہ نے اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا کیا، پاکستان کی عدالتی تاریخ میں نظریۂ ضرورت (Doctrine of Necessity) خود عدلیہ نے وضع کیا جس کے ذریعے آئین شکن فوجی طالع آزماؤں کو عدالتی چھتری فراہم کی گئی، اس نظریۂ ضرورت کو مختلف مواقع پر عدالت عظمیٰ نے فوجی آمروں اور غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینے کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان کے پہلے آئینی بحران کا آغاز اس وقت ہوا جب گورنر جنرل غلام محمد نے قومی اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین کی سربراہی میں اسمبلی تحلیل کر دی، مولوی تمیز الدین نے عدالت میں درخواست دی کہ اسمبلی تحلیل کرنا غیر آئینی ہے تاہم چیف جسٹس منیر احمد نے نظریۂ ضرورت کا سہارا لیتے ہوئے قرار دیا کہ چونکہ قانون ساز اسمبلی نے آئین ساز قانون کو صحیح طور پر نافذ نہیں کیا تھا، اس لیے اسمبلی کی تحلیل کو قانونی حیثیت حاصل ہے، یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں پہلا موقع تھا جب نظریۂ ضرورت کا اصول استعمال کیا گیا، 1958 میں جب ایوب خان نے آئین معطل کر کے مارشل لا نافذ کیا اور عدالت میں یہ معاملہ پہنچا کہ آیا مارشل لا نافذ کرنا آئینی تھا یا نہیں تو اس موقع پر چیف جسٹس منیر احمد نے دوبارہ نظریۂ ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے مارشل لا کو جائز قرار دیا، عدالت نے کہا کہ ’’ملک کو بڑے خطرے سے بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات ضروری ہیں‘‘، 1969 میں جب جنرل یحییٰ خان نے آئین معطل کر کے مارشل لا نافذ کیا اور خود کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر قرار دیاتو اس وقت عدالت عظمیٰ نے یحییٰ خان کے مارشل لا کو غیر آئینی قرار دے دیا لیکن چونکہ ان کے اقدامات ایک عرصے تک نافذ رہے، اس لیے عدالت نے نظریۂ ضرورت کے تحت ان کے اقدامات کو جزوی طور پر درست قرار دیا، 1977 میں بھی جب جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر مارشل لا نافذ کیا تو عدالت عظمیٰ نے ضیاء الحق کے مارشل لا کو نظریۂ ضرورت کی چھتری فراہم کی، پھر جب ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مقدمہ دائر کیا تو اس موقع پر بھی چیف جسٹس انوار الحق نے نظریۂ ضرورت کو استعمال کرتے ہوئے ضیاء الحق کی فوجی حکومت کو جائز قرار دیا اور کہا کہ ’’ملک کو انارکی اور بحران سے بچانے کے لیے ضیاء کا اقدام ضروری تھا‘‘۔ پھر 1999 میں جب پرویز مشرف آئین شکنی کر کے اقتدار پر قابض ہوئے اور عدالت میں مشرف کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تو چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے12 اکتوبر 1999 کے مارشل لا کو نظریۂ ضرورت کے تحت نا صرف جائز قرار دیا دیا بلکہ مشرف کو تین سال تک حکومت کرنے اور آئین میں ترامیم کا اختیار بھی دے دیا۔ یہ واقعات آئین شکنی اور فوجی مداخلتوں کی تاریخ کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا جنہوں نے 2009 میں مشرف کی ایمرجنسی اور پی سی او کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے نظریہ ضرورت کے خاتمے کا اعلان کیا اور کہا کہ پاکستان میں نظریۂ ضرورت اب کبھی استعمال نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ صورتحال ہے جس پر کہا جاسکتا ہے کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ اس تناظر میں اگر حافظ نعیم الرحمن کے مشورے کو دیکھا اور پرکھا جائے تو اسے ملک و قوم کو بحران سے نکال کر تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا نسخہ کیمیا ہی کہا جا سکتا ہے۔ حکومت عدلیہ، پارلیمنٹ اور افواج سمیت ہر ادارے کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قوم کی سلامتی اور ترقی کا انحصار عدالتی نظام کی آزادی اور غیر جانبداری پر ہے، عدلیہ کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک مضبوط، آزاد، اور غیر جانبدار عدلیہ نہ صرف عوام کے حقوق کی ضمانت دیتی ہے بلکہ ملک میں استحکام، انصاف، اور قانون کی حکمرانی و بالادستی کو یقینی بناتی ہے۔ ایسے نظام میں عوام اور ادارے مل کر ترقی کی منازل طے کرتے ہیں، اور ملک بقا و سلامتی کی راہ پر گامزن رہتا ہے۔