جب حقائق کو چھپایا جانے لگے اور سچی خبروں پر پردہ ڈالا جانے لگے تو پھر افواہیں زور پکڑ لیتی ہیں اور انہیں روکنا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔ حکومت خبروں کو تو سنسر کرسکتی ہے، الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو ہدایات جاری کرسکتی ہے لیکن ’’سینہ گزٹ‘‘ پر تو پابندی نہیں لگا سکتی، افواہیں سینہ گزٹ کے ذریعے تیزی سے پھیلتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں نہ خبر چھپ سکتی ہے نہ افواہوں کو روکا جاسکتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اِن دنوں بری طرح افواہوں کی زد میں ہے۔ افواہیں اس لیے پھیل رہی ہیں کہ خود حکومت حقائق بیان کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ پاکستان تحریک انصاف اس کے اعصاب پر سوار ہے، اسے معلوم ہے کہ عوام نے ووٹ تو تحریک انصاف کو دیے تھے لیکن فوجی مقتدرہ نے حکومت مسلم لیگ (ن) کی بنادی ہے جو خود اعتمادی سے محروم ہے۔ پی ٹی آئی اس وقت سیاست کی بند گلی میں پھنسی ہوئی ہے، اس کا لیڈر اس وقت جیل میں ہے، وہ حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کرنا چاہتا، اس کا موقف ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی حیثیت کٹھ پتلیوں سے زیادہ نہیں ہے، اصل اقتدار و اختیار تو فوجی مقتدرہ کے پاس ہے جو ان کٹھ پتلیوں کو نچا رہی ہے۔ اگر بات کرنی ہے تو فوجی مقتدرہ اس سے براہ راست بات کرے۔ افواہیں بتاتی ہیں کہ فوجی مقتدرہ اس سے بالواسطہ طور پر بات چیت کرتی رہتی ہے۔ اس سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر چلا جائے لیکن اس نے باہر جانے سے انکار کردیا ہے۔ پچھلے دنوں یہ افواہ بھی گرم تھی کہ اسے زبردستی کسی عرب ملک بھیج دیا جائے گا لیکن شاید اُس عرب ملک نے آمادگی ظاہر نہ کی اور افواہ دم توڑ گئی۔ پھر بتایا گیا کہ اس سے کہا گیا ہے کہ اسے بنی گالا شفٹ کیے دیتے ہیں وہ آرام سے اپنے گھر میں رہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ تین سال تک سیاست میں دلچسپی نہ لے اور اپنی زبان بند رکھے۔ لیکن اس نے یہ کہہ کر اس شرط کو ٹھکرا دیا کہ تم تین سال کی بات کرتے ہو میں تو تین سیکنڈ کے لیے بھی اپنی زبان بند کرنے کو تیار نہیں ہوں۔
26 نومبر کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں جو خونیں ڈراما برپا ہوا اس پر بے شمار افواہیں گردش میں ہیں۔ سب سے پہلے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما لطیف کھوسہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس آپریشن میں ہمارے 278 افراد مارے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ لطیف کھوسہ ڈی چوک کے احتجاج میں شریک نہیں تھے اور نہ ہی انہوں نے یہ بتانے کی زحمت کی کہ یہ اعداد و شمار انہیں کہاں سے موصول ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے فوراً اِن ہلاکتوں کی تردید کی اور کہا کہ ہمارے صرف 12 کارکنوں کی ہلاکتوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ ہم ان بھاری اعداد و شمار کو اون نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ یہ صاحب بھی ڈی چوک کے احتجاج میں شریک نہیں تھے۔ جو لوگ جائے واردات پر موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ اچانک پورے علاقے میں بجلی بند کرکے قیامت صغریٰ برپا کی گئی تھی، پھر آپریشن کلین اپ کے ذریعے سارا علاقہ صاف کردیا گیا تھا اور تمام ثبوت مٹا دیے گئے تھے اسی لیے وزیر داخلہ دعوے سے کہتے ہیں کہ ہلاکتوں کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائو۔
اسلام آباد میں یہ افواہ بھی تیزی سے گردش کررہی ہے کہ ملک میں قومی حکومت قائم کرنے پر غور کیا جارہا ہے اور شہباز حکومت کی چھٹی ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں بلاول اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان حالیہ ملاقات پر افواہ ساز قیاس کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ شہباز حکومت رخصتی ہوئی تو نئے وزیراعظم بلاول زرداری ہوں گے جو ایک مدت سے وزارت عظمیٰ کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں انہیں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے دوران یہ دلاسا دیا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد تمہاری باری ہے اسی اُمید پر بلاول نے 26 ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کے لیے جان لڑا دی تھی۔ لیکن جب یہ کام ہوگیا تو خاموشی چھا گئی اور بلاول کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ اب پھر اس کی اُمید جاگ اُٹھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عمران خان کو بھی قومی حکومت میں شامل ہونے کی پیش کش کی گئی ہے لیکن انہوں نے انکار کردیا ہے۔
یہ افواہ بھی بڑی دلچسپ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی تقریب حلف برداری میں شرکت کا دعوت نامہ عمران خان کو بھیجا ہے جو انہیں جیل میں پہنچا دیا گیا ہے لیکن ابھی تک ان کا ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ایک دوست کہہ رہے تھے کہ خان صاحب کو تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے حکومت سے یا عدالت عظمیٰ سے پیرول پر رہائی کی درخواست کرنی چاہیے۔ اس میں شک نہیں کہ صدر ٹرمپ پاکستان میں صرف عمران خان ہی کو جانتے ہیں۔ انہوں نے صدارتی انتخاب میں عمران خان کے نام پر ہی امریکا میں مقیم پاکستانیوں کے ووٹ حاصل کیے تھے۔ اگر اس افواہ میں کچھ سچائی ہے تو مقتدرہ عمران خان کو روک کر مشکل میں پھنس جائے گی اور یہ افواہ نہیں باقاعدہ خبر ہے کہ عمران خان نے مطالبات نہ ماننے کی صورت میں سول نافرمانی کی دھکی دے دی ہے، وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے بھی اپیل کریں گے کہ پاکستان ڈالر نہ بھیجے جائیں، شاید یہ وہ آخری کارڈ ہے جو خان صاحب کھیلنا چاہتے ہیں کیا حکومت یہ وار سہہ سکے گی؟