شام کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم موڑ آیا جب صدر بشار الاسد کی 24 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا۔ مسلح دھڑوں کی مسلسل پیش قدمی اور حمص جیسے اہم شہروں پر قبضے کے بعد بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ شامی عوام نے اس تاریخی لمحے کو آزادی کے جشن کے طور پر منایا، اور ہزاروں افراد دمشق کے مرکزی چوک میں جمع ہو کر آزادی کے نعرے لگاتے ہوئے اس فتح کو منایا۔ یہ واقعہ شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور نئی سیاسی تبدیلی کی طرف ایک اہم قدم شمار ہوتا ہے، جو نہ صرف شام بلکہ پورے خطے میں سیاسی سطح پر ایک نیا دور آغاز کی علامت بن سکتا ہے۔ یہ تبدیلی عالمی سطح پر سیاسی اور اقتصادی اثرات مرتب کر سکتی ہے، اور شام کے عوام کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کی موجودہ صورتحال کے پیش ِ نظر ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔ مغربی ممالک، بالخصوص امریکا اور یورپی یونین، اس تبدیلی کو شام میں استحکام اور جمہوریت کے قیام کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جانب، روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفّظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گی۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد شام میں ایک اہم تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ روس کی جانب سے بشار الاسد اور ان کے خاندان کو سیاسی پناہ دینے کا اقدام کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔ روس نے بشار الاسد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر سیاسی پناہ دی ہے، جو روس کے شام کے اندرونی معاملات میں دیرینہ کردار اور اسد حکومت کی حمایت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ اقدام روس کے جغرافیائی سیاسی مفادات کو ظاہر کرتا ہے۔ بشار الاسد کا روس پہنچنا اور انہیں سیاسی پناہ ملنا ممکنہ طور پر امریکا اور مغربی ممالک کے لیے باعث تشویش ہو سکتا ہے۔ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد خطے میں ایران، ترکی، اور سعودی عرب جیسے ممالک کی پوزیشن اور اثر رسوخ میں تبدیلی آ سکتی ہے، جو خطے کے سیاسی توازن پر اثر ڈالے گی۔ اسد حکومت ایران کی اہم اتحادی تھی۔ اس کے زوال سے ایران کو خطے میں اپنے مفادات کا تحفّظ کرنے کے لیے نئی حکمت ِ عملی اپنانا پڑے گی۔ ترکی کی شام میں بڑھتی ہوئی دلچسپی اور کردوں کے حوالے سے اس کی حساسیت شام میں ایک نئے سیاسی بندوبست پر اثر ڈال سکتی ہے۔ سعودی عرب کے لیے اسد حکومت کا خاتمہ اس کے علاقائی ایجنڈے کو تقویت دینے کا موقع ہے، خاص طور پر ایران کے اثر کو محدود کرنے کے تناظر میں۔
امریکا کی خاص توجہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر مرکوز ہے تاکہ یہ خطرناک ہتھیار کسی غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا انتہائی محتاط اقدامات کر رہا ہے اور ترکی کے حکام کے ساتھ اس حوالے سے رابطے میں ہے۔ امریکا کی توجہ ایک نئے اور مستحکم شام کی تشکیل پر ہے، امریکا کا ماننا ہے کہ شامی باغی رہنما اب تک درست بیانات دے رہے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ باغیوں کی حمایت کسی حد تک امریکا کی پالیسی کا حصّہ ہو سکتی ہے۔ شام میں موجود روسی اڈوں کی حیثیت اور مستقبل کے بارے میں امریکا کسی قیاس آرائی سے گریز کر رہا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ عالمی سطح پر اہم سیاسی اور اسٹرٹیجک سوالات کو جنم دے گا۔
شام میں الاسد خاندان کی 53 سالہ حکمرانی کے اختتام کو نہ صرف ایک تاریخی موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ عوامی احتجاج اور مزاحمت کے نتیجے میں طویل المدتی آمرانہ حکومتیں بھی زوال پذیر ہو سکتی ہیں۔ اس صورتحال کو درج ذیل تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ الاسد خاندان کی حکمرانی 1970ء میں حافظ الاسد کے اقتدار میں آنے سے شروع ہوئی، جس کے بعد 2000ء میں بشار الاسد نے اقتدار سنبھالا۔ اس عرصے میں، ملک میں طاقت کا مرکز ایک چھوٹے اشرافیہ گروہ کے ہاتھوں میں رہا، جس نے سخت گیر پالیسیاں نافذ کیں اور اپوزیشن کو دبانے کے لیے بھرپور طاقت استعمال کی۔ اسد خاندان نے ملک میں سیاسی استحکام کے دعوے کے باوجود عوامی سطح پر بے شمار مظالم اور ظلم و جبر کی حکمت ِ عملی اختیار کی، جس کی وجہ سے عوامی عدم اطمینان میں اضافہ ہوا۔ اس کا نتیجہ خانہ جنگی کی صورت میں نکلا، جس نے شام کو کئی سال تک بحران اور تباہی کا شکار کیا۔ یہ تبدیلی شام اور خطے کی سیاسی ڈائنامکس میں بڑی تبدیلیوں کا باعث بنے گی، جس کے اثرات نہ صرف شام، بلکہ عالمی سیاست پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
2011ء میں عرب بہار کے دوران شام میں عوامی احتجاج شروع ہوئے، جن میں جمہوریت، انسانی حقوق، اور آزادی کے مطالبات کیے گئے۔ ان احتجاجوں کو طاقت سے کچلنے کی حکومتی کوششوں نے جلد ہی ایک خونریز خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی، جو 14 سال تک جاری رہی۔ خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے، اور لاکھوں مزید بے گھر ہو گئے۔ جنگ کے دوران مختلف اندرونی اور بیرونی قوتیں ملوث ہوئیں، جنہوں نے شام کو ایک پراکسی جنگ کا میدان بنا دیا۔ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ عوامی احتجاج کی طاقت، بین الاقوامی دباؤ، اور اندرونی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ اس زوال کو ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس نے شام کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔
شام کی بغاوت کے مختلف مراحل میں اخوان المسلمین کا کردار ایک اہم اور تاریخی پہلو رکھتا ہے۔ اخوان المسلمین شام میں ایک طویل عرصے سے سرگرم رہی ہے، اور اس کا اثر مختلف ادوار میں مختلف رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران بھی اخوان المسلمین نے کسی حد تک کردار ادا کیا، لیکن اس کا کردار مکمل طور پر واضح یا مرکزی نہیں رہا۔ اخوان المسلمین شام میں 1940ء کی دہائی میں قائم ہوئی تھی اور شام کی سیاسی اور سماجی زندگی میں فعال رہی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں اخوان المسلمین اور حافظ الاسد کی بعث پارٹی حکومت کے درمیان شدید تنازعات پیدا ہوئے۔ شام کی خانہ جنگی کے دوران، اخوان المسلمین نے باغی تحریک میں کسی حد تک کردار ادا کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا اثر مرکزی حیثیت حاصل نہ کر سکا۔ جنگ کے مختلف دھڑوں اور خارجی قوتوں کی موجودگی نے اخوان کے کردار کو محدود کر دیا، جب کہ دیگر اسلام پسند اور قوم پرست دھڑوں کے درمیان بھی اقتدار کی کشمکش جاری رہی۔ اس کے باوجود، اخوان المسلمین شام کے سیاسی اور سماجی منظر نامے کا ایک لازمی حصّہ بنی رہی، جو عوامی تحریکوں اور اصلاحات کے لیے اپنی نظریاتی اور تنظیمی بنیادوں پر کام کرتی رہی۔
شام میں اخوان المسلمین کے کردار کو اس کے تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ جبر کے خلاف مزاحمت اور اصلاحات کی داعی رہی ہے۔ تاہم، موجودہ حالات میں اخوان کو دیگر دھڑوں کے ساتھ مل کر شام کے نئے سیاسی نظام کی تشکیل میں اپنا کردار متعین کرنا ہوگا۔ شام کی خانہ جنگی اور اخوان المسلمین کے کردار کی یہ کہانی اس بات کی گواہ ہے کہ جبر اور آمریت کے خلاف جدوجہد طویل اور صبر آزما ہو سکتی ہے، لیکن اگر اس میں اتحاد اور حکمت ِ عملی شامل ہو تو وہ دیرپا تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
1982ء میں ’’حماۃ قتل عام کے دوران بعث حکومت نے اخوان المسلمین کے خلاف ایک بڑی کارروائی کی، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، اور اخوان المسلمین کے اراکین کو جلاوطنی یا زیر ِ زمین سرگرمیوں پر مجبور ہونا پڑا۔ 2011ء میں شام کی بغاوت کے آغاز پر، اخوان المسلمین نے حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی۔ اخوان المسلمین کی قیادت نے اسد حکومت کے خاتمے کی کوششوں میں دوسرے اپوزیشن گروہوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا، خاص طور پر ’’شامی قومی کونسل‘‘ (Syrian National Council) کے قیام میں۔ تاہم، اخوان المسلمین کی تنظیمی طاقت جلاوطنی اور شام کے اندر کمزور نیٹ ورک کی وجہ سے محدود رہی۔
میدان میں اخوان المسلمین کا اثر انقلابی تحریک کے ابتدائی مراحل میں نسبتاً کمزور رہا کیونکہ مسلح جدوجہد زیادہ تر دیگر گروہوں جیسے کہ آزاد شامی فوج (Free Syrian Army) اور جہادی تنظیموں نے سنبھال لی تھی۔ اخوان المسلمین نے مسلح گروہوں کو مالی اور نظریاتی حمایت فراہم کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کا اثر جبھۃ النصرۃ یا داعش جیسے جہادی گروہوں کے مقابلے میں کم رہا۔ اخوان المسلمین کو قطر اور ترکی جیسے ممالک کی حمایت حاصل رہی، جو اسد حکومت کے خاتمے کے لیے سرگرم تھے۔ اخوان المسلمین نے اپنے سیاسی اثر رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی، لیکن سعودی عرب اور دیگر ممالک نے ان کی حمایت کرنے کے بجائے دوسرے اپوزیشن گروہوں کو ترجیح دی۔
اخوان المسلمین شام کی بغاوت کے دوران حکومت مخالف تحریک کا حصّہ رہی، لیکن میدان میں ان کا اثر محدود رہا۔ ان کی نظریاتی اور سیاسی کوششوں کو جہادی اور دوسرے اپوزیشن گروہوں کے مقابلے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ تاہم، ان کی موجودگی شامی خانہ جنگی کے سیاسی پہلو میں ایک اہم عنصر رہی ہے، خاص طور پر بین الاقوامی حمایت اور اپوزیشن گروہوں کے اتحاد کے حوالے سے۔
شامی باغیوں کے رہنما ابومحمد الجولانی: ابومحمد الجولانی (اصل نام: احمد حسین الشرع) ایک شامی باغی رہنما ہیں جو ’’جبھۃ النصرۃ‘‘ (النصرہ فرنٹ) کے بانی اور سربراہ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جبھۃ النصرۃ شام کی خانہ جنگی کے دوران القاعدہ سے وابستہ ایک جہادی تنظیم کے طور پر سامنے آئی تھی، جو بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑ رہی تھی۔ الجولانی کا تعلق شام کے شہر درعا سے ہے اور وہ 1980ء کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد عراق میں القاعدہ سے وابستگی اختیار کی۔ الجولانی نے عراق میں القاعدہ کے ساتھ کام کیا اور وہاں ابو مصعب الزرقاوی کے ماتحت رہے، جو عراق میں القاعدہ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے عسکری تجربہ عراق میں امریکی افواج کے خلاف جنگ کے دوران حاصل کیا۔
2011ء میں شام کی خانہ جنگی کے آغاز پر، الجولانی واپس شام آئے اور 2012ء میں جبھۃ النصرۃ کی بنیاد رکھی۔ جبھۃ النصرۃ جلد ہی شام کی سب سے مؤثر باغی تنظیموں میں شامل ہو گئی، اور القاعدہ کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے اسے عالمی سطح پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا۔ 2016ء میں الجولانی نے جبھۃ النصرۃ کا نام تبدیل کر کے ’’فتح الشام‘‘ رکھا اور بعد میں ’’ہیئۃ تحریر الشام‘‘ (HTS) کے قیام کا اعلان کیا، جس کا مقصد القاعدہ سے علیحدگی ظاہر کرنا تھا۔ اس تبدیلی کا مقصد عالمی برادری کی حمایت حاصل کرنا اور ایک شامی مقامی تحریک کے طور پر پہچانا جانا تھا۔ الجولانی نے شام کے ادلب صوبے میں اپنی تنظیم کو مضبوط کیا اور وہاں ایک مضبوط گڑھ قائم کیا۔انہوں نے کئی گروہوں کو متحد کرنے کی کوشش کی، مگر ان پر مخالف تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سخت تنقید بھی کی گئی۔
بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ عالم اسلام کے لیے مختلف سطحوں پر فوائد فراہم کر سکتا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ممکن ہے کہ مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان ہم آہنگی کی فضا قائم ہو، شام میں سیاسی استحکام بھی قائم ہو سکتا ہے۔ اس سے پورے خطے میں، خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں، امن اور استحکام کی بحالی کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ بشار الاسد کی حکومت روس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں مغربی ممالک کے لیے شام ایک اہم جغرافیائی اور سیاسی چیلنج بن چکا ہے۔ اس حکومت کے خاتمے سے مغربی طاقتوں کی شام میں مداخلت کم ہو سکتی ہے۔
اسد کی حکومت کے خاتمے سے شامی پناہ گزینوں کے اپنے وطن واپس جانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، جو کہ عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ اس سب کا حقیقی اثر شام کی داخلی صورت حال، عالمی برادری کے اقدامات اور خطے کے دیگر مسائل پر منحصر ہوگا، لیکن اس کے ممکنہ فوائد عالم اسلام کے لیے اہم اور دور رس ہو سکتے ہیں۔
بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ شام کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے، اب یہ دیکھنا ہوگا کہ شام اور خطے کے دوسرے ممالک اس تبدیلی کا کس طرح سامنا کرتے ہیں اور اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ شامی عوام کے لیے یہ موقع ایک نئے سیاسی، سماجی، اور اقتصادی دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ انحصار کرے گا کہ نئی حکومت کس حد تک عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ایک جامع نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر یہ تبدیلی موثر سیاسی قیادت اور عوامی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھی، تو شام نہ صرف خانہ جنگی کے زخموں کو مندمل کر سکے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک مثبت مثال بھی بن سکتا ہے۔