مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت ملکی خزانے کو بھرنے کے لیے اپنی حدیں عبور کرنے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے مگر ان ٹیکسوں کی وصولی اور اس کی وجوہات کے واضح نہ ہونے کے باعث یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے فیڈرل بیورو آف ریونیو کے بدعنوان و راشی افسران کے لیے ایک نیا چور دروازہ تخلیق کردیا ہے جبکہ لوگوں کی خوشیوں کو ماند کرنے کے لیے ایک کاری ضرب لگانے کی چال چلی ہے۔ یہ امر درست ہے کہ شدید مہنگائی کے باوجود امیر اور متوسط طبقے میں شادی بیاہ کی تقریبات میں زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کرنے کے رجحان میں اضافہ نوٹ کیا جارہا ہے۔
شادی کی تقریب پر ٹیکس کے نفاذ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کو ان کی مرضی سے منانے سے روکنا ہے۔ یہ فیصلہ جمہوری حکومت کے زیر کنٹرول چلنے والے ایک طاقتور ادارے کا ہے جس سے کسی غریب کیا متوسط طبقے کا بھی کوئی زیادہ تعلق نہیں ہوتا جبکہ تنخواہ دار لوگ تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ وہ ادارہ ہے جو ان کی محنت کی محدود آمدنی سے انکم ٹیکس کے نام پر ٹیکس آمدنی ان کی دسترس میں آنے سے قبل ہی چھین لیا کرتا ہے، جِسے سڑکوں پر دندناتے گھومنے والے ڈاکو اور رہزن لوٹ لیا کرتے ہیں۔ ڈاکوؤں اور رہزنوں کے ذکر سے خیال آیا کہ ہمارے ملک میں ایک یہی طبقہ تو ہے جو کھل کر جمہوریت کے مزے لے رہا ہوتا ہے، عوام تو ان کو بھی جمہوریت کی سوغات جان کر صدیوں سے برداشت کرتے چلے آرہے ہیں اور ان کے ہاتھوں لوٹی جانے والی اپنی محنت کمائی کو بھی ٹیکس سمجھنے لگی ہے۔ خیال رہے کہ وطن عزیز میں لوگ پورے مہینے کی محنت کی کمائی گھر لے جاتے ہوئے خوف زدہ رہتے ہیں کہ پولیس کی غفلت و لاپروائی اور پشت پناہی کے نتیجے میں سرگرم ڈاکوؤں کے ہاتھوں لٹ نہ جائیں۔ قوم اب یہ یقین کرنے پر مجبور ہے کہ کھربوں روپے سالانہ ٹیکسوں کی وصولیابی کے باوجود ملک اور قوم مطلوبہ ترقی سے محروم کیوں ہے پوری قوم اب اس نکتے پر یقین کرنے لگی ہے کہ عوام کے ٹیکسوں سے بھاری رقوم ہر سال خورد برد اور ڈاکے کی نظر ہو جایا کرتی ہوگی۔ اس صورتحال میں عوام کے سامنے صرف اللہ کو یاد کرنے اور برداشت کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ ہمارا وطن پاکستان ہے جہاں کسی پر شک کرنا بھی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔