شام کا مستقبل

368

1970ء کے بعد کے 54 سال شام کی تاریخ کے غالباً بدترین ایام تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج ’’نْصیریوں‘‘ کے دور کا اختتام ہورہا ہے۔ فرانسیسی استعمار نے شام میں اقلیتوں کو مضبوط کیا اور پھر بالآخر 1970 میں نْصیریوں کو ’’عَلَوِی‘‘ نیا نام دے کر مسلط کیا۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر جب غزہ اور لبنان لہولہان ہیں، شام میں تبدیلی سے بہت زیادہ توقعات نہیں رکھی جاسکتیں۔ مغرب کسی سنی کو کبھی خوشی سے مسلط نہیں کرے گا، الایہ کہ وہ لبرل ہو، یا ان کی مجبوری ہو۔ اس کی ترجیح اسماعیلی، دروز، علوی، نصیری، بہائی، قادیانی وغیرہ جیسی اقلیتیں ہوتی ہیں۔ جیسے الفتح کا فلسطینی صدر محمود عباس، جو بہائی ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ باطنیہ کی اسلام دشمن زندیق تین بڑی شاخیں شام میں سرگرم ہیں۔ 3 فی صد اسماعیلی ہیں۔ تین فی صد دروز ہیں۔ اور 5 فی صد علوی نصیری ہیں۔ یہ سب مل کر دس فی صد سے زیادہ ہیں۔ جعفری اثنا عشری شیعہ بہت کم ہیں۔ ڈھائی کروڑ کی کل آبادی میں تقریباً 80 فی صد سے کچھ کم سنی مسلمان ہیں جن کی اکثریت حنفی ہے۔ عیسائی دس فی صد ہیں۔ محمد بن نصیر النمیری، جو نصیریہ کا بانی تھا، سیدنا حسن عسکری کا ملاقاتی تھا۔ اس پر انہوں نے لعنت فرمائی۔ یہ فرقہ مسلمان نہیں۔ ان کے اپنے روزے اور اپنی عیدیں ہیں۔ نصیری ؍ علوی زیادہ تر شمالی ساحلی علاقوں لطاقیہ، طرطوس وغیرہ میں ہیں۔ دروز بھی جنوبی پہاڑیوں پر ہیں۔ تاریخ دان جانتے ہیں کہ سالمیہ Salimiyyah اسماعیلی باطنیوں کا مرکز تھا اور اب بھی ہے۔

ہمارا پختہ یقین ہے کہ عقائد میں تو سنیوں اور شیعوں میں کبھی اتفاق و اتحاد نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ ’’مشترکات‘‘ پر کفر و الحاد اور مغرب کے خلاف ان میں سیاسی اتحاد ضرور ہونا چاہیے۔ بد قسمتی دیکھنے کہ 400ھ میں بغداد کے سنی اور اثنا عشری شیعہ علماء نے متفقہ طور پر نصیریوں کو خارج از اسلام قرار دیا، اس کے باوجود ایران اور حزب اللہ نے سنیوں کے خلاف بشَّار الاسد کی ہر طرح مدد کی۔

دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ایران نے یمن کے زیدیوں کو اثنا عشری بنانے اور انہیں عسکری تربیت دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ شام میں دس فی صد کرد بھی ہیں۔ کرد اچھے سنی ہوتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی اور امام ابن تیمیہ بھی کرد تھے۔ ترکیہ باغیوں کی حمایت کررہا ہے۔ بشَّار الاسد کے جانے کے بعد یہ نہ سمجھیے کہ شام میں امن قائم ہوگا۔

امریکا کی خواہش ہوگی کہ شام کی مزید تقسیم ہو۔ شام عسکری قوت نہ بنے۔ اسلامی اتحاد میں شامل نہ ہو۔ اسرائیل کو مزید مضبوط کیا جائے۔ مزید وسعت دی جائے۔ اس وقت امریکا بظاہر غیر جانب دار ہے، لیکن بہت جلد وہ اہم کردار ادا کرے گا۔ روس یوکرین میں پوری طرح پھنسا ہوا ہے۔ اب وہ شام سے بہت حد تک بتدریج لا تعلق ہوتا جائے گا، لیکن اس کی وہاں جڑیں گہری ہیں۔ 50 سال کی انوسٹمنٹ ہے۔ اب امریکا اسرائیل کی مدد سے اپنی جڑیں مضبوط کرے گا۔ امارت والے وہی کریں گے جو امریکا چاہے گا۔ سعودی عرب کچھ حد تک شامیوں کی مدد کریں گے، لیکن وہ بہر حال امریکا کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہمیں موجودہ صورتحال پر اللہ کا شکر ادا چاہیے کہ ہمیں درمیانی مدت کے لیے ریلیف ملا ہے، لیکن مستقبل میں سخت معرکے درپیش ہیں۔ قیامت کے لیے لوگ شام ہی میں جمع ہوں گے۔ یہی میدان حشر بنے گا۔ قیامت کی تیاری کیجیے۔