محنت کشوں کے مسائل اور قانون ساز کمیٹیاں

109

گزشتہ دنوں اسلام آباد میں حکومت پاکستان نے 15 سال بعد دو روزہ قومی سہ فریقی لیبر کانفرنس منعقد کی ایک طویل عرصے بعد اس کانفرنس کا انعقاد نہایت ہی خوش آئند ہے اس کے لیے وفاقی وزیر ہیومن ریسورس ڈیویلپمنٹ چوہدری سالک حسین، وفاقی سیکرٹری ڈاکٹر ارشد محمود مبارکباد کے مستحق ہیں پاکستان بھر کے مزدور ان کے شکر گزار ہیں اور ایک طویل عرصے بعد یہ بھی پہلا موقع ہے کہ اس وزارت کی کوششوں سے آئی ایل او کے تین کنونشنز منظور کیے گئے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد پاکستان میں پانچ لیبر قوانین رائج ہیں اور صوبائی سطح پر لیبر وزارتوں کا اہم کردار ہے اور عالمی امور وفاق کی سطح پر ہی ڈیل کیے جاسکتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق میں وزارت محنت کے کردار کو بحال کر کے موثر کیا جائے اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے اور قانون بنانے کے لیے حکومتی پارٹیوں کو اس کے لیے آمادہ کرنے کے لیے وقت لگے گا تب تک وفاقی وزارت انسانی وسائل کے تحت چاروں صوبوں کی محنت کی وزارتوں پر مشتمل ایک بااختیار کمیٹی تشکیل دے دی جائے اور اس
کمیٹی کے تحت ہر سطح پر حقیقی مزدور نمائندوں کو نمائندگی دیتے ہوئے سہ فریقی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں تاکہ مزدوروں کو درپیش مسائل جو کہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کے ہیں حل ہوسکیں۔ یونینز کی رجسٹریشن میں درپیش مشکلات اور مالکان کی طرف سے یونینز کو تسلیم نہ کرنے کا کلچر، مستقل ملازمتوں کی جگہ ٹھیکیداری نظام کو اختیار کر لینا، کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی، منافع میں مزدوروں کو نظر انداز کرنا، قانون کے مطابق اوقات کار پر عمل درآمد کا فقدان، خواتین لیبرز کا استحصال، تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی، ہیلتھ اینڈ سیفٹی اقدامات کو نظر انداز کرنا اور دیگرایسے مسائل کے فوری حل کے لیے یہ کمیٹی اقدامات کرے۔ کیونکہ خوشحال اور مطمئن مزدور ہی پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے اور اس وقت اس امر کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جو نجکاری کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے اس پر نظر ثانی کی جائے۔ جو ادارے تباہ ہوئے ہیں ان اداروں میں تباہی کی ذمہ داری کرپٹ اور نااہل انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے جب تک تمام اداروں کو اہل اور دیانت دار مینجمنٹ کے سپرد نہیں کیا جاتا تباہی و بربادی کا سفر جاری رہے گا۔ ہم قومی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے انشاء اللہ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک اسٹیک ہولڈر کے طور ہم پر اعتماد کیا جائے اور تمام مشاورت میں ہمیں شریک کیا جائے۔