سندھ میں تعلیم کو بھینٹ سیاست کی نہ چڑھائو

233

سندھ علم و ادب کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ منصورہ، ٹھٹھہ کی درس گاہوں کا شہرہ عالم آفاق ہوا کرتا۔ مگر اب جو سنا اور دیکھا تھا وہ خواب ہوتا جارہا ہے۔ سندھ میں تعلیم کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے، لسانی تقسیم جو ممتاز بھٹو وزیراعلیٰ سندھ نے ایک بل کے ذریعے زبان کے مسئلے پر اُس کو بانٹنے اور نمٹانے میں کتنے ہی انسانوں کی جانوں کا زیاں ہوا۔ مگر یہ پھوٹ اور خلیج پاٹی نہ جاسکی، اندرون سندھ کی اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں ایک طبقہ کے لیے خاص اور دوسرے کے لیے نوگوایریا بن کر رہ گئیں یوں اُس طبقے کو علم سے محروم کرکے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا۔ کوٹا سسٹم کے نام پر مرے کو مارے شاہ مدار کا کھیل شروع کیا جو اب تک جاری و ساری ہے اور ہر حکومت نے اس پتھر کو چوم کر رکھ دیا۔ ایم کیو ایم کا جنم اور جراثیم اس ہوا۔ اور ماحول نے پروان چڑھایا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نااہل، غالب آکر سرکاری تماشا کرنے لگے اور لوگوں کو ہنسانے لگے، ڈگری یافتہ تو بن گئے مگر علم و فکر سے کورے ہی رہے۔ اس تعلیمی ابتری کو عالمی بینک نے جانا اور امداد کو میرٹ سے مربوط کرکے اساتذہ کی بھرتی کا دانہ ڈالا۔

اب لسانی اندھیرا تو تعلیمی اداروں سے کچھ چھٹا ہے مگر دل کا کینہ بدستور ہے۔ تعلیمی اداروں میں سیاہ سیاست کی گھٹا نے اب نیا روپ بدلا ہے، کراچی یونیورسٹی میں فیس لاکھوں میں ہے تو سندھ یونیورسٹی میں ہزاروں روپے میں ہے۔ پڑھو تو پڑھو شہریوں ورنہ تمہاری مرضی۔ یہ تقسیم سندھ، علم کے میدان میں جاہلیت کی عکاسی نہیں تو اور کیا ہے؟ اب یونیورسٹی میں بیوروکریسی کو مسلط کرنے کی تیاریاں ہیں وہ بیوروکریٹ جنہوں نے بیوروکریسی میں لوٹ مار، اقربا پروری، قانون شکنی کے جھنڈے گاڑے اور لوگوں کی بددعائیں لیں ماشاء اللہ اب وہ اپنے ناقص، بے ہودہ تجربات کی روشنی میں درس گاہوں کو سنبھالیں گے اور اس خاطر سندھ یونیورسٹیز اینڈ انسٹیٹیوٹس لاز ایکٹ 2018ء میں ترمیم کرکے وائس چانسلرز کے لیے پی ایچ ڈی ہونے کی شرط ختم کردی کچھ حلقوں کا خیال ہے پتا نہیں وہ کیوں ہے کہ اب بولی لگے گی اور جو زیادہ بولی دے گا وہ اربوں روپے کے یونیورسٹی فنڈ اور تعلیم سے خوب کھل کر کھیلنے کا حقدار ہوگا۔ امیر جماعت اسلامی سندھ کاشف سعد شیخ کا کہنا بالکل درست ہے کہ اس سے تعلیمی معیار پر منفی اثرات ہوں گے اور تعلیمی آزادی متاثر ہوگی اس کو واپس لیا جائے۔ یہ وقت کی آواز ہے اس پر کان نہ دھرے تو تعلیمی نظام ڈھیر ہوجائے اس میں کوئی دو رائے ہرگز نہیں۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی اس سلسلے میں اپنے سیکرٹری شکیل ملک سے رواں سال 6 اگست کو ایک خط وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو بجھوایا اس میں کہا گیا تھا کہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وائس چانسلر کی زیادہ تر صوبے کے تعلق رکھنے والے امیدواروں سے بھری گئی ہیں۔ صدر مملکت کی خواہش ہے کہ نوجوان نسل کے فائدے کے لیے وائس چانسلر کی بھرتی کے عمل کو مزید کھلا کیا جائے اور مسابقتی بنایا جائے یہ عمل تمام پاکستان کی بنیاد پر بین الاقوامی معیارات اور ایکریڈیشن کے مطابق ہونا چاہیے۔ مزید برآں اعلیٰ درجہ کے عالمی ٹیلنٹ کو راغب کرنے کے لیے بین الاقوامی فیکلٹی کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے، مگر صدر پاکستان کی یہ ہدایت بھی صدا بصحرا ہوئی سندھ حکومت نے اس پر کان نہ دھرا اور سندھ میں وائس چانسلر کے تقرر کے لیے جو بھی اشتہار دیے گئے اس میں سندھ کے ڈومیسائل کو لازمی قرار دے کر صلاحیتوں کو ملک بھر سے انتخاب کا دروازہ بند کردیا۔ سو اب قلت کا سامنا بھی ہے کئی یونیورسٹیوں کو وائس چانسلر کے بغیر چلایا جارہا ہے جن میں لاڑکانہ یونیورسٹی اور صوفی یونیورسٹی شامل ہیں اور کہیں ایک وائس چانسلر دو کشتی کے سوار ہیں جسے انیمل سائنس یونیورسٹی سکرنڈ اور بے نظیر یونیورسٹی نواب شاہ کا بوجھ ایک ہی وائس چانسلر کے دونوں کندھوں پر ہے اور خوب مزے کے تذکرے ہیں۔ تعلیم اور صحت جو بنیادی ضرورتیں ہیں ان کا بوجھ پہلے ہی پرائیویٹ اداروں کو منتقل کرکے ڈوبتی تعلیمی کشتی کا بوجھ ہلکا کیا ہے۔ وہ اب قصائیوں کا کردار ادا کررہی ہیں۔ اب این جی اوز کے حوالے سے صوبہ سندھ میں تین ہزار پرائمری اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ غیر سرکاری تنظیموں اور حکومت کے مابین معاہدہ ہوگا ابتدائی طور پر 5 اضلاع میرپور خاص، عمر کوٹ، تھرپارکر، کشمور اور جیکب آباد کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ کیا اس ناکامی کا اعتراف نہیں کہ حکومت سندھ تقریباً 481 ارب روپے تعلیم پر خرچ کرنے کے باوجود تعلیم کے میدان میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔ رہی این جی اوز منصوبہ یہ بھی کہتے ہیں اپنوں کو نوازنے ہی طریقہ کا ہے۔ سیاست کی ضرورت کے لیے تعلیم کو بھینٹ نہ چڑھائے تو یہ صوبہ کے مفاد میں ہے۔ اپنے صدر کی بات مان لو!