پاکستانی سیاست میں عورت کارڈ

406

یہ عنوان کچھ عجیب یا اوکھا سا لگ رہا ہوگا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس کے بجائے یہ ہیڈنگ ہوتی ’’پاکستانی سیاست میں خواتین کا کردار‘‘ تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔ اوّل تو مجھے یہ عنوان پرانا اور کچھ گھسا پٹا سا لگتا ہے دوسری بات یہ کہ یہ دونوں عنوانات کے ایک لحاظ سے معنی و مفہوم ایک جیسے نظر آتے ہیں لیکن اگر الگ الگ ان کی تفصیل میں جائیں تو پھر کچھ فرق واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ سیاست میں خواتین کے کردار میں ایک مثبت اپروچ کا تاثر ملتا ہے اور جب سیاست میں عورت کارڈ کی بات کی جائے گی تو کچھ منفی عوامل کے محرکات اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے رہنمائوں میں ہمیں کسی خاتون کا نام نظر نہیں آتا سوائے محترمہ فاطمہ جناح کے یہ ہر وقت قائد اعظم کے ساتھ رہتی تھیں اب چاہے اس کی وجہ بہن بھائی کی محبت ہی کیوں نہ ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قائد اعظم نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنے ساتھ رکھنے کے علاوہ کسی سیاسی سرگرمی میں ان کی کوئی ذمے داری نہیں لگائی یہی وجہ ہے کہ قائد کی وفات کے بعد محترمہ نے سیاست میں متحرک ہونے کے بجائے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ یہ تو جب جنرل یوب خان نے 1964 میں بی ڈی انتخاب کرائے اور پھر اس کے ذریعے سے صدارتی انتخاب کرائے تو اس وقت کی اپوزیشن COP یعنی Combaned opposition Parties کو ایوب خان کی مضبوط آمریت کو چیلنج کرنے کے ایک مضبوط فرد کی ضرورت تھی پہلے تو دو نام خواجہ ناظم الدین اور جنرل اعظم خان کے سامنے آئے یہ دونوں شخصیات ویسے تو پورے ملک میں مقبول تھے لیکن مشرقی پاکستان میں ان کے لیے وہاں کے لوگوں کا جذباتی لگائو تھا خواجہ ناظم الدین تو تھے ہی مشرقی پاکستان کے اور جنرل اعظم خان جب مشرقی پاکستان کے گورنر تھے تو ان کی کارکردگی کچھ ایسی تھی کہ وہاں کے لوگ ان کو بہت پسند کرتے تھے عام بنگالی انہیں آجم (اعظم) بھائی کہہ کر پکارتا تھا۔ لیکن اپوزیشن نے بہت سوچ بچار کرکے ایوب خان کے مقابلے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح کو جو سیاست میں آنا نہیں چاہتی تھیں ایوب خان سے مقابلے لیے بمشکل تیار کیا۔

پاکستانی سیاست میں خواتین کے کردار میں پہلا نام محترمہ فاطمہ جناح کا آتا ہے لیکن تحریک پاکستان میں خواتین میں کام کرنے کے حوالے سے بھی ان کی کچھ نہ کچھ خدمات رہی ہوں گی۔ ایک حوالے سے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کی کمبائنڈ اپوزیشن نے محترمہ کو ٹرمپ کارڈ کے طور پر لیا ہو اس لیے کہ ایوب خان کی مضبوط قسم کی آمریت کو چیلنج کرنے کے لیے ایک ایسی ہی شخصیت کی ضرورت تھی جس سے پاکستانی قوم کا جذباتی لگائو ہو چونکہ پاکستانی عوام کا قائد اعظم سے ایک جذباتی لگائو ہے اور محترمہ قائد اعظم کی بہن تھیں اس لیے ان کے میدان میں آنے سے ایوب خان کو اپنی کرسی ہلتی ہوئی نظر آئی ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت کی اپوزیشن نے قائد اعظم کارڈ کھیلا۔

محترمہ سے پہلے تین خواتین بھی نمایاں رہیں ان میں ایک تو ناہید اسکندر مرزا اور دوسری بیگم رعنا لیاقت علی خان اور تیسری بیگم فیروز خان نون۔ ناہید اسکندر مرزا سابق وزیر اعظم اسکندر مرزا کی اہلیہ تھیں سیاست میں دیکھا جائے تو موروثیت کا آغاز ان ہی سے ہوا یہ سیاست میں بہت فعال تھیں ان کی ذات سے کوئی مثبت رول منسلک نہیں ہے تو کوئی منفی بات بھی سامنے نہیں آئی۔ اسکندر مرزا کے کریڈٹ یا ڈسکریڈٹ میں یہ بات جاتی ہے کہ جہاں انہوں نے ایک طرف خواتین کو سیاست میں متعارف کیا وہیں دوسری طرف آن ڈیوٹی جنرل کو وزیر دفاع بنا کر فوج کو سیاست میں فعال ہونے کا موقع فراہم کیا۔ دوسرا نام بیگم رعنا لیاقت علی کا آتا ہے جو سیاست میں تو فعال نہیں تھیں لیکن وہ ایک سوشل ایکٹوسٹ (سماجی رہنما) کی حیثیت سے فعال رہیں انہوں اپوا All Pakistan Wemen Assosiation کے نام سے ادراہ قائم کیا جس کے تحت پورے ملک میں تعلیمی اداروں کا جال پھیلا دیا لیاقت آباد میں بھی سپر مارکیٹ کے برابر میں اپوا اسکول و کالج پچھلے کم و بیش 70 برسوں سے تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے بہرحال بیگم رعنا لیاقت علی خان کا یہ کارنامہ قوم ہمیشہ یاد رکھے گی تیسرا نام محترمہ بیگم فیوز خان نون کا ہے جنہوں نے گوادر کے حصول کے لیے مسقط کے حکمرانوں سے نتیجہ خیز مذاکرات کیے جس کا فائدہ اب قوم کو ملنے والا ہے۔ جنرل ضیاء کے دور میں بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو میدان سیاست میں پہلے سے زیادہ متحرک ہوئیں انہوں نے ملک کے دیگر سیاستدانوں کو ساتھ ملا کر ایم آر ڈی یعنی تحریک بحالی جمہوریت تشکیل دی۔ ایم آر ڈی نے ایک بھرپور تحریک چلائی ویسے تو جنرل ضیاء نے بظاہر تو اسے کچل دیا لیکن اندر سے وہ ہل ضرور گئے اور اسی لیے انہوں نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخاب کا اعلان کیا۔

پی پی پی نے اس انتخاب کا بائیکاٹ کیا جو ان کے احتجاج کا ایک حصہ تھا اگر وہ عوام دوست پارٹی کے نام سے حصہ لیتی تو واضح اکثریت سے کامیاب ہوتی اس لیے اس زمانے میں اسی نتیجے کا اعلان کیا جاتا تھا جو پولنگ اسٹیشنوں میں تیار ہوتے تھے اس نتیجے سے جنرل ضیاء کے لیے مشکل پیدا ہوجاتی کہ یہ انتخاب شراکت اقتدارکے لیے ہوئے تھے۔ ایک خاتون کی حیثیت سے بیگم نصرت بھٹو نے جنرل کے خلاف اپنی احتجاجی مہم سے پیپلز پارٹی کو سیاست میں زندہ رکھا پی پی پی کے مخالفین یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے عورت کارڈ استعمال کیا جب بھٹو کی پھانسی کے بعد اکثر رہنما خاموش یا روپوش ہو گئے تھے تو نصرت بھٹو کا میدان میں آنا ایک سیاسی مجبوری تھی۔

یہ کارڈ کیا ہوتا ہے شادی کارڈ یا کوئی دعوتی کارڈ لیکن یہاں تاش کے پتوں کو کارڈ کہا جاتا ہے تاش کے ایک کھیل میں ٹرمپ کارڈ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اردو میں ترپ کا پتا کہتے ہیں اسے ہر کھیلنے والا سنبھال کے رکھتا ہے اس میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ یہ یکا اور بادشاہ تک کی بازی پلٹ دیتا ہے۔ ہم نے سیاست میں سب سے پہلے سندھ کارڈ کا نام سنا تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ کارڈ سے کھیلتی ہے کہ یہ چاہے پورے ملک میں ہار جائے لیکن چونکہ یہ سندھ سے جیت جاتی ہے اس لیے یہ سندھ میں اپنی جیت کو وفاق پر دبائو کے لیے استعمال کرتی ہے بعض لوگ اس طرح بھی کہتے ہیں کہ یہ سندھ کارڈ سے وفاق کو بلیک میل کرکے اپنے قد سے زیادہ فوائد حاصل کرتی ہے جیسا کہ آج کل ہم دیکھ رہے کہ یہ تینوں صوبوں میں ہارنے کے باوجود اس نے پورے ملک کے آئینی مناصب پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد پی پی پی آج تک بھٹو کارڈ سے کھیل رہی ہے۔ اسی کارڈ کی بدولت 1986 میں بے نظیر بھٹو کا لاہور میں فقیدالمثال استقبال ہوا اور پھر وہ دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بھی رہیں۔ 2007 میں بینظیر کے جاں بحق ہونے کے بعد آصف زرداری نے بینظیر کارڈ استعمال کیا ویسے تو انہوں نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا۔

جس طرح بھٹو کی پھانسی کے بعد نصرت بھٹو میدان عمل میں آئیں پھر بینظیر متحرک ہوئیں 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور وہ گرفتار ہوگئے دوتہائی اکثریت رکھنے والی پارٹی سے پورے ملک سے کوئی بھی نہیں نکلا البتہ کراچی میں مشاہد اللہ خان مرحوم نے ایک احتجاجی جلوس نکالا تھا پھر گرفتار ہو گئے ایسے حالات میں بیگم کلثوم نواز میدان عمل میں آئیں۔ جب ہم پی پی پی اور ن لیگ کو یہ الزام نہیں دے سکتے کہ ان جماعتوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے عورت کارڈ استعمال کیا اسی طرح علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کے میدان میں آنے کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پی ٹی آئی عورت کارڈ استعمال کررہی ہے۔