میں: لگتا ہے آج بچوں کی تربیت کے حوالے سے کچھ گفتگو کا ارادہ ہے۔
وہ: کوئی خاص نہیں بس ایسے ہی ایک واقعہ یاد آگیا جو کسی بزرگ نے کبھی کسی محفل میں سنایا تھا۔ ہوا کچھ یوںکہ ایک مرید نے کسی پیر صاحب کو اپنے گھر مدعو کیا اور یہ اس مرید کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا، گھر پر پیر صاحب کی آمد کے حوالے سے خاصا اہتمام کیا گیا اور خاص طور بچوں کو سمجھایا بجھایا گیا کہ حضرت کے سامنے کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کرنا جس سے انہیں تکلیف ہو یا کوئی شور شرابہ یا شرارت جو اُن کی طبیعت پر گراں گزرے۔ اگر پیر صاحب تم لوگوں کی طرف دیکھیں تو صرف مسکرا کر ہاتھ ہلانا اور چپ چاپ بیٹھے رہنا۔ خیر صاحب، پیر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے اپنی ٹوپی ساتھ رکھی میز پر اور لاٹھی دانستہ ذرا پرے کو رکھ دی تاکہ دیکھیں کہ کوئی بچہ اس کے ساتھ کیا شرارت کرتا ہے، مگر مجال ہے جو بچے ٹس سے مس ہوئے ہوں، وہ دم سادھے بت بنے بیٹھے رہے۔ بالآخر انہوں نے اپنے مرید سے کہا کہ بھائی یہ بچوں کی کیا گت بنارکھی ہے، جب سے میں آیا ہوں سب کے سب ہاتھ باندھے گم سم بیٹھے ہیں، نہ کوئی میری ٹوپی اٹھاکر اپنے سر پہ پہننے کی کوشش کررہا ہے، اور نہ ہی میری لاٹھی کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ۔ مجھے پتا ہے تم نے انہیں میری وجہ سے ڈرایا دھمکایا ہے، ارے میاں بچے شرارت نہیں کریں گے تو کیا ہم بڑے کریں گے، بچپن تو ہوتا ہی شرارتوں کے لیے ہے، گھر کی ساری رونق ان ہی کے دم سے تو ہوتی ہے، ان کی کلکاریاں، ہنسی مزاق، اچھل کود سب ہی کچھ اچھا لگ رہا ہوتا ہے۔ بڑوں کا کام تو شرارت اور بدتمیزی کے بیچ جو واضح لکیر ہے بچوں کو اس کے فرق سے آگاہ کرنا ہے اور یہی تربیت کا تقاضا بھی ہے۔
میں: ہاں تمہاری بات بالکل ٹھیک ہے بچوں کو بچپن میں ہی جو باتیں سکھادی جائیں وہ زندگی بھر کے لیے ان کے ذہنوں میں راسخ ہوجاتی ہیں اور یقینا یہ والدین ہی کی ذمے داری ہے کہ باہر کی دنیا سے بچوں کا رابطہ ہونے سے پہلے ان کی بنیادی اخلاقیات اور عادات کا تربیتی عمل مکمل ہوجانا چاہیے۔
وہ: لیکن تربیت کے اس عمل کے دوران یہ نفسیاتی امر بھی زیر غور رہے کہ بچے بہت اچھے نقال ہوتے ہیں، جو دیکھتے ہیں اس کو اسی طرح کرنا شروع کردیتے ہیں، یعنی کہنے سننے سے زیادہ چیزوں کو دیکھ کر جلدی سیکھتے ہیں اور مجموعی طور پر دیکھو تو ہر انسان اسی فطرت پر خلق کیا گیا ہے۔
میں: اس موقع پر ایک سوال بہت شدت سے مجھے تنگ کررہا ہے کہ بچوں کی بہتر پرورش ان کی اچھی تعلیم و تربیت کے ذریعے کی جاسکتی ہے لیکن ان بڑوں کا کیا جائے جو مستقل ہٹ دھرمی کی روش پر قائم ہوں اور غلطیوں کی نشان دہی ہونے کے بعد بھی اپنی اصلاح کرنے پر راضی نہ ہوں؟
وہ: جب عادات پختہ ہوجائیں تو انہیں بدل کر صحیح سمت اختیار کرنا کبھی کبھی بہت کٹھن ہوجاتا ہے کیوں کہ بڑے ہونے کے بعد تو عموماً سیکھنے سکھانے کے امور سے آدمی دور بھاگتا ہے اور ہمارے ہاں کے بڑے تو بہت ہی بڑے ہیں، اپنی دانست میں وہ خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہیں اور اُن کے علاوہ جتنے بھی ہیں وہ سب بیکار بلکہ بیکارِ محض ہیں۔ اور مشکل یہ ہے کہ ہمارے بڑوں نے اپنے چھوٹوں کو پیار کی نظر سے کبھی دیکھا ہی نہیں، انہیں تو صرف آنکھیں دکھا کر اور ڈنڈا گھما کر خاموش کرانے کا ہنر آتا ہے۔ یہ بچوں کو سونے کا نوالہ تو درکنار سبزی ترکاری بھی کھلانے پر روادار نہیں مگر شیر کی نگاہ سے اس طرح قابو میں رکھا ہوا ہے کہ مجال ہے جو کسی پل چین وسکون کا کوئی لمحہ میسر آسکے۔ کیوں کہ اس کی نظر لمحہ بھر کو اگر چوُک بھی جائے تو غرانے اور دھاڑنے کی آواز مسلسل کانوں میں پڑتی رہتی ہے اور یوں خوف کی کیفیت ہمہ وقت ہی ذہنوں پر طاری رہتی ہے۔
آج کل دیوان عام اور دیوان خاص کچھ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے، کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں بچوں کی طرح کان پکڑ کر لایاگیا ہے مگر زیادہ تر تو ہر بار کی طرح اس بار بھی بڑے طنطنے سے بے غیرتی کی دستار پہنے دونوں جگہ براجمان ہیں۔ جیسے جیسے ہدایات مل رہی ہیں ویسے یسے فرماں بردار اور تابعدار بچوں کی طرح کبھی دن کے اجالے اور کبھی رات کے اندھیرے میں احکامات کی بجاآوری کی جارہی ہے۔ کیوں کہ ان دونوں ایوانوں میں موجود لوگوں کو قانون سے کوئی غرض ہے نہ قانون سازی سے۔ قانون سے اس لیے کوئی مطلب نہیں کہ اب تک قانون نے ان کا کیا اکھاڑ لیا جو اب کچھ ہوجائے گا اور رہی بات قانون سازی کی تو یہ ان کے منصب کے شایان شان ہی نہیں۔ بس لکھے لکھائے پرچے اور مسودے ہاتھوں میں صرف ورق گردانی کے لیے پکڑا دیے جاتے ہیں جسے ایک مقررہ وقت کے بعد ان سے واپس لے لیا جاتا ہے۔ اس بات کو یوں سمجھ لو کہ پرنسپل صاحب کے کمرے سے تمام نصاب ایک بنے بنائے نظام کے تحت خود بخود کلاس میں پہنچ جاتا ہے اور وہاں موجود تمام بچے کبھی اپنی ڈیسک بجا کر اور کبھی اپنے ہاتھ اٹھا کر اس کی تائید کرکے اپنا فرض منصبی ہنستے کھیلتے ادا کردیتے ہیں، اور اگر کوئی ایسا کرنے میں آنا کانی کرتا ہے تو اس کو پیار سے بس ایک ہی جملہ کہا جاتا ہے۔ مسکرا کر ہاتھ اٹھائو بچوں، مسکرا کر ہاتھ ہلائو بچوں۔ اور پھر جب کچھ نہ کرکے اتنا سب کچھ مل جائے تو ذرا دیر کو جھوٹ موٹ کا مسکرانے میں کیا حرج ہے۔ پتا نہیں اگلی بار یہ موقع ملے گا یا انہیں کیوں کہ ایسے سنہری موقع باربار تھوڑی ملتے ہیں۔ اسی مناسبت سے آج کی یہ گفتگو اس فی البدیہہ قِطعہ پر ختم کرتے ہیں۔
کوئی شکوہ زباں پہ لائیں کیوں
بے اجازت یوں مسکرائیں کیوں
منتظر اِذنِ خاص کے ہم لوگ
ایسے موقع کو یوں گنوائیں کیوں