حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے؟

318

شاعرنے کہا تھا:
حسن اور حکومت سے کون جیت سکتا ہے؟

جس طرح حسن کا بیان ممکن نہیں، حکومت سے جیت بھی آسان نہیں، اس پر حکمت عملی بھی اگربے سروپا ہو تو کارکنوں کی لاشوں کی گنتی ہی بے ہنری کا آخری نتیجہ قرار پاتی ہے۔ ریاستی جبر کو جائزکہا جاسکتا ہے اور نہ پی ٹی آئی کی خودفریبی کو جس نے اپنے پیروکاروں کو بھڑکا کر موج خوں کے سپرد کردیا اور خود کوچہ قاتل سے فرار ہوگئی۔

سیاست ممکنات کا کھیل ہے اور یہ بھی درست ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا تو پھر باربار یہ بے سود چڑہائیاں، آنکھیں بند کرکے کارکنوں کو ریاستی طاقت کا رزق بنا دینے کے لیے بے رحمی سے آگے کردینا اور پھر لاشوں کی گنتی میں یوں مبالغہ کرنا جیسے یہی حاصل تھا، یہی مقصد تھا، یہی حکمت عملی تھی ریاست کو دبائو میں لانے کے لیے۔ پہلے ان گنت کارکنوں کی شہادت کی خبر دی گئی، پھر ایک گو ئبلز نے تعداد کو 278 لاشوں تک سمیٹ دیا اور اب معاملہ 12 لاشوں پر آکر فائنل ہوگیا ہے، اس تبصرے کے ساتھ کہ ’’یہ ہماری تاریخ بلکہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا قتل عام تھا جس نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی مظالم اور فلسطین میں اسرائیل کی خون ریزی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے‘‘۔

اس موقع پر بہتر تھا کہ اپنے شرمناک ’’بھگوڑے پن‘‘ پر کارکنوں سے معافی مانگی جاتی۔ کارکنوں کو ڈی چو ک پر لا کر کھڑا کردینے کے بعد، بے یارو مددگار چھوڑ کر علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بیگم جس بے تابی سے مجمع سے بھاگنے کی کوشش کررہی تھیں اگر پی ٹی آئی کا قیادت کا یہی معیار ہے، یہی قائدانہ صلاحیت ہے، تو پھر کس برتے پر عمران خان تصادم اور پیکار کی سیاست جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کیا صرف اس لیے کہ تصادم میں قیادت کا اور ان کے خاندان کے افراد کا تو کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ تو بھاگ کر کسی گوشہ عافیت میں پناہ لے لیتے ہیں، یہ کارکنان ہوتے ہیں جو سرابوں کے تعاقب میں، دشت بے اماں میں آنسو گیس کی بے پناہ شیلنگ، آگ اور بارود کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں لاٹھیاں کھاتے ہوئے گرفتاریاں دے رہے ہوتے ہیں، گولیاں کھا کر گررہے ہوتے ہیں۔ ہزاروں گھر بے امان ہوگئے، بارہ خاندان اجڑ گئے لیکن ان میں اہل سیاست کا کوئی گھر نہیں، کوئی خاندان نہیں، کوئی فرد نہیں جو ٹھوکر کھا کر گرا ہو، کسی کو ہلکی سے خراش آئی ہو۔

آنکھیں اور دماغ بند کرکے بے درد اہل سیاست کی مکاریوں، چالبازیوں، معرکہ آرائیوں اور فتنہ سامانیوں میں جس جوش وخروش اور جان کی پروا کیے بغیران کے سپورٹرز، پیروکار اور کارکنان حصہ بٹاتے ہیں، جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں، دھرنے دیتے ہیں، گرفتار ہوتے ہیں، جیلیں بھرتے ہیں اور اپنی جانوں سے گزرجاتے ہیں، کیا ان کی قیادت کو، ان کے لیڈروں کو، دیوتائوں اور اوتاروں کو اس کی معمولی سی بھی قدر ہے؟ کیا وہ اپنے کارکنوں کی قربانیوں کو کوئی وقعت دیتے ہیں؟ کارکنوں کو ریاست کے اندھے جبر اور طاقت کے مقابل لاتے ہوئے اپنے کارکنان کی جان اور مال کی معمولی سی فکر بھی ان کے حاشیہ خیال میں کہیں موجود ہوتی ہے؟ اگر ان کے خودساختہ جعلی انقلاب، ریاست پر حملے، جلوس اور بے نتیجہ معرکہ آرائیاں اتنے ہی مقدس ہیں تو وہ خود کیوں بلٹ پروف گاڑیوں اور محفوظ کنٹینروں پر چڑھے ہوتے ہیں، سڑکوں پر کارکنان کے دوش بدوش کیوں نہیں ہوتے؟ جس وقت کارکنان لاٹھیوں، شیلوں اور گولیوں کی زد پر ہوتے ہیں ان کے بچے کیوں آرام دہ ڈرائنگ رومز میں بیٹھے ہوئے مزے سے کافی پی رہے ہوتے ہیں؟

عمران خان کی طرف سے وقفے وقفے سے پیدا کی جانے والی افراتفری اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کی حکمت عملی اور فائنل کال کسی بامقصد تبدیلی اور مثبت انقلاب کے لیے نہیں ہے، یہ محض اقتدار کے حصول کی جنگ ہے۔ جس طرح شہباز حکومت دھاندلی زدہ انتخابات کی پیداوار ہے اسی طرح 2018 میں عمران خان کی حکومت بھی دھاندلی کی پیداوار، سلیکٹڈ اور اسٹیبلشمنٹ کی پروڈکٹ تھی۔ پونے چار سال تک اسٹیبلشمنٹ کے مکمل طور پر ساتھ دینے اور تعاون کے باوجود عمران خان نے ملک وقوم کے لیے کیا کیا سوائے ڈیفالٹ کے خطرے تک پہنچانے اور زوال وانحطاط کے اندھے کنویں میں بہت گہرا اتار دینے کے۔ کوئی شواہد نہیں ملتے کہ انہوں نے اپنی مسلسل ہزیمت سے کوئی سبق سیکھا ہو؟ آئندہ کے لیے بھی بے سود معرکہ آرائیوں کے علاوہ ان کے ذہن میں کچھ ہو۔

فائنل کال کا نتیجہ کچھ بھی نکلتا، پاکستان کے عوام کی حالت جوں کی توں رہنی تھی۔ اس میں کچھ فرق نہیں پڑنا تھا کیونکہ یہ ایجنٹوں کے مختلف گروہوں کی اقتدارکے حصول کی باہمی لڑائی ہے جس میں سیاسی کارکنان اور عوام محض ایندھن ہیں۔ موجودہ نظام میں مختلف سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کے اہم معاملات اور مشکلات کے لیے لفظوں کے ہیر پھیر اور انیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک ہی پروگرام ہے۔ یہ وہی پروگرام ہے جو واشنگٹن نے ہمارے لیے طے کردیا ہے جسے اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے سیاسی جماعتیں بروئے کار لاتی ہیں۔ کشمیر کا معاملہ دفن کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی تکرار کرنا، نارملائزیشن کے نام پر بھارت کی بالادستی تسلیم کرنا، غزہ کے مجاہدین اور عوام کی مدد کے لیے کسی بھی عملی اقدام سے گریز کرنا، معیشت کے باب میں آئی ایم ایف کے قرضوں اور اس کی پالیسیوں پر عمل کرنا، ہر وہ اقدام اٹھانا جس سے مغربی لبرل ماڈل کے نفاذ کی منزل قریب تر آسکے، مسلمانوں کے کھلے دشمن امریکا پر انحصار کرنا۔ کیا ہماری موجودہ حالت زار کا سبب یکے بعد دیگرے آنے والے حکمرانوںکا اسی ایک ایجنڈے پر عمل کرنا نہیں ہے؟ کیا عمران خان کی اس سیاسی کشمکش سے اس ایجنڈے اور عوام کی حالت زار پر کوئی فرق پڑے گا؟

تبدیلی کی امید لگائے عوام جس طرح عمران خان کی کال پر جلسے جلوسوں میں شرکت کررہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام اس نظام سے تنگ آچکے ہیں، وہ اس نظام کو مسترد کرچکے ہیں لیکن محض چہرے تبدیل کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ عمران خان پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ اور امریکا کے ایجنڈے پر کام کرتے رہے وہ آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ فائنل کال نے یہ واضح کردیا ہے کہ محض عوامی ہمدردی اور حمایت سے فیصلہ کن تبدیلی نہیں آسکتی۔ تبدیلی افواج پاکستان کی مدد اور سپورٹ سے ممکن ہے؟ سوال یہ ہے کہ تبدیلی کیا ہے؟ ثابت ہو گیا ہے کہ اس نظام میں بہتری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس نظام کو اصلاح اور بہتری کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے۔ ہمارے مسائل کا حل صرف شریعت اسلامیہ اور اسلام کے نفاذ میں ہے، خلافت راشدہ کے نظام میں ہے۔ ہمیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر کامل بھروسا کرتے ہوئے اس منزل کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی۔ ان غدار اور بھگوڑے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے محض چہرے تبدیل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔