ہر جگہ ایک ہی سوال پوچھا جارہا ہے کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں کیا ہوا؟ جس طرح کا جھوٹ پھیلایا جارہا ہے ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا؟ جو کچھ بھی ہوا وہ جی ٹین میں ہوا جناب! اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ جس کا رد عمل ڈی چوک میں دکھایا گیا‘‘ جی ٹین رہائشی سیکٹر ہے جو اسلام آباد کے ڈی چوک سے کم و بیش دس کلو میٹر دور ہے، وہاں ایک واقعہ ہوتا ہے کہ امن و امان کی ڈیوٹی پر تعینات تین اہل کار جان سے گئے، ایک تیز رفتار گاڑی آئی اور انہیں کچل کر چلی گئی، مگر یہ گاڑی جاتی کہاں؟ ملزم پکڑا جا چکا ہے، اب فیصلہ عدالت میں ہوگا۔ فیصلہ جو بھی ہو جیسا بھی ہو ہمیں قبول ہے کہ عدالت فیصلہ شہادتوں اور گواہی کی بنیاد پر دے گی، لیکن جن لوگوں نے خود ہی فیصلہ لکھنا اور سنانا شروع کردیا تھا ان کی ایسی چھترول ہوچکی ہے کہ اب وہ بھی عدالت کے فیصلے تک خاموش رہیں گے۔ ان کی صحافت میں جتنی بھی اکڑ تھی وہ اب نکل چکی ہے۔ صحافت واقعی ایک ذمے دارانہ کام ہے لیکن کچھ عرصہ ہوا کہ جب بھی لفظ صحافت لکھا جاتا ہے تو ساتھ ہی یہ بھی لکھا جاتا ہے کہ ذمے دارانہ صحافت ہونی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اب صحافت واقعی ذمہ دارانہ صحافت نہیں رہی۔ اب سوال یہ ہے کہ کسی بھی اخبار میں کوئی بے بنیاد، غلط خبر چھپ جائے تو ذمے دار کون ہوگا؟ کیا رپورٹر اس کا ذمے دار ہوگا؟ جس نے خبر فائل کی، نہیں! صرف رپورٹر نہیں بلکہ مدیر بھی برابر کا ذمے دار کہلائے گا کہ جس نے اس خبر کو مستند مان کر ہی اخبار میں شائع کیا کیونکہ مدیر ہی اصل مورچہ ہے جہاں ایک ایسا سپاہی بیٹھا کہ وہ چھان پھٹک کا حتمی اختیار رکھتا ہے۔ غلط خبر کی اشاعت پر جہاں رپورٹر سے باز پرس ہوگی وہیں مدیر بھی بری الزمہ نہیں ہوگا۔
تحریک انصاف نے شور مچا رکھا ہے کہ سیکڑوں کارکن مارے گئے، اب بیرسٹر گوہر کہہ رہے ہیں کہ ان کی اطلاع کے مطابق یہ تعداد 12 ہے۔ یہ بیرسٹر گوہر کی گواہی ہے، تعداد جتنی بھی ہو کسی بھی انسانی جان کا یوں چلے جانا اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ کیسی صحافت ہے اور یہ کیسے یوٹیوبرز ہیں جو صرف پیسہ کمانے کے لیے تعداد کے بارے میں اول فول بک رہے تھے۔ انہیں صرف یہ یقین تھا کہ جس قدر بھی وائرل ہوں گے اسی قدر پیسہ ملے گا۔ لعنت ہے ایسے پیسے پر جو جھوٹ پھیلاکر کمایا جائے۔ کیا یہ صحافت ہے؟ کیا یہی صحافت ملک کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے؟ ہر گز ہرگز ایسا نہیں ہوتا۔ سورہ الحجرات میں دی گئی ہدایات بڑی واضح ہیں۔ اگر ہم سورہ الحجرات کی دی ہوئی گائیڈ لائن پر عمل کرلیں تو کبھی کسی کی خبر بائونس نہ ہو اور کسی رپورٹر اور مدیر کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ ہماری ایک بڑی مصیبت ہے لوگ بھی جھوٹ ہی سننا پسند کرتے ہیں۔ اگر انہیں ہوا کے رُخ کے برعکس بات بتائی اور سنائی جائے تو اسے تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے، ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کا دعویٰ ہے ہمیشہ سچ ہی بولنا چاہیے وہ بھی سچ سننے کو تیار نہیں ہوتے۔
تحریک انصاف کم و بیش ایک دہائی سے سڑکوں پر احتجاجی سیاست ہی کرتی نظر آتی ہے، 2013ء کے انتخابات سے لے کر آج تک اِس کے کارکن چین سے نہیں بیٹھ سکے، احتجاجی سیاست تو اب قومی شعار بنتی نظر آتی ہے، تحریک انصاف کیا دیگر جماعتیں بھی احتجاج کے لیے اسلام آباد کا رُخ کر لیتی ہیں اور اسلام آباد بند کرنے کی خواہش میں مبتلا رہتی ہے، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو یہ خیال اور اپنے دل میں احساس پیدا کرے کہ دھرنے کے دنوں میں اہل اسلام آباد پر کیا گزرتی ہے؟ تمام سیاسی جماعتیں سب اپنا جائزہ لیں اور اہل اسلام آباد کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا کھیل بند کریں۔
سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جب چار ماہ سے زائد کا دھرنا لا حاصل رہا، لانگ مارچ ناکام رہے، کسی جلسے یا جلوس سے کوئی مطلوبہ نتیجہ نہیں حاصل ہوئے تو اس کا مطلب ہے کہ احتجاجی سیاست کی گنجائش ذرا کم ہی ہے، جتھوں کے دباؤ پر حکومتیں ختم نہیں جا سکتیں۔ کوئی بھی عمل، کوئی بھی ردعمل قانونی دائرے اور پارلیمانی حدود میں ہی کامیاب ہو سکتا ہے، ہمارے ہاں بنگلا دیش کی مثال دی جاتی ہے وہاں دیکھیں تو سہی اب کیا ہورہا ہے؟ حکومت تو بدل گئی لیکن وہاں مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گمبھیر ہو گئے ہیں عمران خان ملک کے وہ پہلے وزیراعظم تھے جنہیں باقاعدہ تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کیا گیا۔ اس کے بعد اْنہوں نے پارلیمان میں بیٹھنے کے بجائے مستعفی ہو کر سڑکوں کا رْخ کر لیا، دو صوبوں میں قائم اپنی حکومتوں کو خود ہی ختم کر دیا لیکن پھر بھی ناکام ہی رہے۔ کبھی سائفر لہرایا اب امریکا سے سائفر کا انتظار ہے اب اُنہوں نے فائنل احتجاج کی کال دی تھی اس سے کیا حاصل ہوا؟ اسے چاہیے کہ اپنی ضد ایک طرف رکھے، حکومت بھی بات چیت کا راستہ کھولے، تحریک انصاف بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھے کہ معاملات بالآخر سڑکوں پر نہیں پارلیمان ہی میں حل ہوں گے۔