قارئین کرام ! آپ آج کے کالم کے عنوان کو کوئی سائنسی فارمولا نہ سمجھ لیجیے گا، قصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر اسراراحمد نے کراچی میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی تھی کہ بچہ رحم ِ مادر میں جن مراحل سے گزرتا ہے، قرآن نے ان کی نشاندہی ڈیڑھ ہزار سال پہلے کر دی تھی اور سائنسدانوں کو بھی اس بات پر حیرت ہے کہ جو بات انہیں آج معلوم ہو رہی ہے، قرآن نے اس کا اظہار اس وقت کر دیا تھا جب کوئی اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
ہم اپنے علمائے کرام اور خاص طور پر ڈاکٹر اسرار جیسے جید علمائے کرام سے ایسی باتیں سنتے ہیں تو ہمیں اسلام کی حقانیت کا پہلے سے زیادہ یقین ہو جاتا ہے اور ہمیں فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس کے بیان کردہ حقائق کی گواہی جدید سائنس بھی دے رہی ہے۔ خدانخواستہ جدید سائنس قرآن کے حقائق کی گواہی نہ دیتی تو نہ جانے ہمارے اسلام اور ایمان کا کیا حال ہوتا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو ان تمام جید علمائے کرام سے پوچھنا چاہیے جو بات بات پر یہ کہتے رہتے ہیں کہ دیکھیے ہمارے مذہب کی کیا بات ہے: اس کی گواہی تو سائنس بھی دے رہی ہے۔ سائنس پرستی عصر حاضر کا ایک مقبول غیر مذہبی مذہب ہے اور اس کا معاملہ اس شعر جیسا ہے۔
ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
بعض محققین کا اصرار ہے کہ اس شعر کے مصرع ثانی میں زلفوں کے بجائے زلف آیا ہے یعنی سب اسی زلف کے اسیر ہوئے۔ یہ ادب اور ادب کی تحقیق کا معاملہ ہے، اس لیے اس کا حال ہم پڑھے لکھے لوگوں یا ادیبوں، شاعروں اور محققوں پر چھوڑتے ہیں لیکن جہاں تک سائنس کے حوالے سے مذکورہ شعر کا تعلق ہے تو اس کے مصرع ثانی میں لفظ ’’زلفوں‘‘ زیادہ مناسب ہے کیونکہ سائنس کی اتنی زلفیں ہیں کہ جن کا شمار بھی ممکن نہیں اور ان زلفوں کا معاملہ یہ ہے کہ جدید تعلیم حاصل کرنے والے تو کیا، ڈاکٹر اسرار جیسے جید علما بھی ان کے اسیر دکھائی دیتے تھے۔ ممکن ہے، یہ ہمارا حسن ظن یا سوئے ظن ہو لیکن جو بھی ہو، اتنی بات تو علما سے ضرور پوچھی جانی چاہیے کہ آخر ان کا مسئلہ کیا ہے؟ اور وہ اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے سائنس کی طرف کیوں لپکتے ہیں؟
اب جہاں تک ڈاکٹر اسرار کا تعلق ہے تو وہ ایک عالم بھی تھے اور دانش ور بھی اور انہیں یہ بتانا فضول سی بات ہے کہ مذہب اور سائنس کا تعلق کیا ہے؟ سائنس کل تک پورے مذہب کی تردید کر رہی تھی ، آج کہیں کہیں تصدیق کر رہی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ آنے والے کل میں پھر مذہب کی تکذیب کر دے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت میں پھر ہم کیا کریں گے۔ یہ سائنس اگر مذہب کے ایک ایک جزو کی تردید کر دے تو کیا ہم اپنا مذہب چھوڑ دیں گے؟ یا اگر وہ مذہب کے ایک ایک جزو کی تصدیق کر دے تو کیا ہم اچانک زیادہ مذہب پرست ہو جائیں گے؟ سائنس تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر کام کرتی ہے اور مذہب ایمان بالغیب کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان دونوں میں کوئی نکتۂ اتصال نہیں۔ اس حوالے سے بہت سے لوگ اسلامی اور غیر اسلامی سائنس کا سوال اْٹھاتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں سوال اسلامی یا غیر اسلامی سائنس کا نہیں ہے بلکہ علم کے ذرائع کا ہے۔ مذہب کا ذریعہ علم وحی ہے اور سائنس کا تجربہ مشاہدہ اور مفروضہ۔ سائنس اگر مذہب کے دائرے میں بھی آپریٹ کر رہی ہو تو اس پر وحی تو نازل نہیں ہو جائے گی، وہ بہر حال رہے گی سائنس ہی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی سائنس اور سیکولر سائنس میں کوئی فرق نہیں۔ ان میں زمین آسمان کا فرق ہے لیکن یہ امتیاز ایک الگ بحث ہے۔
ڈاکٹر اسرار صاحب تو یقینا مذہب اور سائنس کے فرق اور مدارج سے واقف ہوں گے لیکن فی زمانہ عام پڑھے لکھے لوگوں کے علم اور ذہنی و نفسیاتی سانچے کا حال اچھا نہیں۔ چنانچہ جب کوئی شخص اور خاص طور پر عالم دین یہ کہتا ہے کہ یہ دیکھیے سائنس بھی مذہب کی فلاں بات کی تصدیق کر رہی ہے تو عام لوگ مذہب اور سائنس کو متوازی حقیقتیں سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ ایسا کبھی تھا، نہ ہے، نہ ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ ایک بڑا نقصان ہے اور اس سے عام لوگوں کے عقائد اور مذہبیت پر خطر ناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آخر یہ بات اب لوگ دھڑلے سے کہنے لگے ہیں کہ اسلام ہندوازم یا ایسے ہی کسی دوسرے مذہب کی طرح تو ہم پرستی کی اجازت نہیں دیتا، کیونکہ اسلام ایک سائنسی مذہب ہے اور اس کے اْصول صاف سیدھے اور عقل کی بنیاد پر سمجھ میں آجانے والے ہیں۔
ہمارے یہاں یہ بات سب سے پہلے اقبال نے کہی تھی کہ مغرب کے پاس جو سائنس ہے، وہ تو ہماری سائنس ہے۔ مغرب نے یہ سائنس ہم سے لی اور اسے آگے بڑھا دیا اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے۔ بہر حال اب مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مغرب سے اپنی سائنس واپس لے لیں۔ یہاں معاملہ غالب کی طرف داری اور سخن فہمی کا آجاتا ہے اور اگر آدمی غالب کی طرف داری کے بجائے سخن فہمی کو ترجیح دے تو اس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں ہے کہ وہ اقبال کی اس بات کو پورے احترام مگر شدت کے ساتھ رد کر دے، کیونکہ مغرب نے سائنس کیا کئی چیزیں مسلمانوں سے لی تھیں، لیکن اس نے ان سب کے زمین و آسمان ہی بدل ڈالے، چنانچہ اب مغرب میں جو کچھ ہے وہ اسی کا ہے، ہمارا نہیں۔ اقبال نے ایک زمانے میں مسولینی کو سراہا تھا اور مارکسزم سے توقعات باندھی تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ ان کے سامنے مسولینی کی انقلابیت کے نتائج تھے اور نہ مارکسیت کی مساوات اور عدل کے شاخسانے، غالباً سائنس کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لیکن اقبال نے کبھی جو بات کہی تھی بہت سے لوگ اب تک اس کو لیے بیٹھے ہیں۔ یہ بات کے ساتھ ہی نہیں، اقبال کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔