دنیا بھر میں جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو بے شمار سہولتیں فراہم کی ہیں، لیکن اس ترقی کی وہ بہت بڑی قیمت ادا کررہا ہے۔ بڑے شہروں میں ٹریفک کے شور اور گاڑیوں کے دھویں نے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کیا ہے بلکہ انسان کی ذہنی و جسمانی صحت پر بھی خطرناک اثرات مرتب کیے ہیں۔ حالیہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹریفک کا شور نہ صرف ذہنی تناؤ اور اینگزائٹی کو بڑھاتا ہے بلکہ ڈپریشن جیسے مسائل کو بھی جنم دیتا ہے۔ صوتی آلودگی نہ صرف انسانی صحت بلکہ ماحول، جانوروں اور پرندوں پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ دوسری جانب قدرتی آوازیں، جیسے پرندوں کی چہچہاہٹ نہ صرف دل کی دھڑکن کو ہم آہنگ کرتی ہے بلکہ یادداشت کو بھی بہتر بناتی ہے۔ پاکستان میں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان سے خارج ہونے والا زہریلا دھواں نہ صرف ماحولیاتی آلودگی بلکہ صحت کے مسائل جیسے دمہ، دل کی بیماریوں اور سانس کے مسائل کو بھی بڑھا رہا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اس کے نتیجے میں شہروں میں اسموگ کا تناسب بڑھ چکا ہے، جو سماجی، تعلیمی اور معاشی سرگرمیوں کو متاثر کررہی ہے۔ ہمارے یہاں بدانتظامی اور قانون شکنی تو ہر جگہ موجود ہے اور یہ قانون بنانے والوں کی سرپرستی میں ہے، اب گیس کی کمی کے باعث صنعتوں میں متبادل ایندھن کے طور پر ناقص مواد استعمال ہورہا ہے، جیسے لکڑی، پرانے کپڑے اور پلاسٹک، جو اسموگ کے مسئلے کو بہت زیادہ بڑھا رہے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کررہے ہیں۔ یورپی ممالک میں الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال عام ہوچکا ہے، اور صنعتی آلودگی کو کم کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ جاپان اور چین میں پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا جارہا ہے تاکہ ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم ہو۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں اس اہم مسئلے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جارہی۔ یہ معاملہ صرف ریاست کا نہیں بلکہ ہر فرد کا ہے۔ ہر شہری کو سمجھنا ہوگا کہ ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ نئی نسل کے اندر ماحول کے تحفظ کا شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں اسکولوں اور کالجوں میں ماحولیاتی آگاہی کے پروگرام منعقد کرنے ہوں گے اور شجرکاری کی تحریک کو فروغ دینا ہوگا۔ انسان آج خود اپنے ذہن اور اپنی ذات کا قاتل بن چکا ہے۔ مادیت کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے والے انسان نے اپنی انسانیت کو دائو پر لگا دیا ہے اور خود اپنے آپ کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ عہدِ حاضر میں انسان نے اپنا سارا جھکائو مادیت کی طرف کردیا ہے۔ اب ہر شے کو مادیت کے ترازو میں تولنے کا رجحان عام ہوچکا ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ انسانی زندگی غیر متوازن ہوکر رہ گئی ہے۔ زندگی کا روحانی پہلو نظرانداز ہوچکا ہے، اور انسان اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگی کھو چکا ہے۔ جدید دور کی اس مادہ پرستی نے انسان کو احساس، ہمدردی، اور مروت جیسے اعلیٰ جذبات سے دور کردیا ہے۔ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
ان حالات میں ہمیں اپنے اندر ہر سطح پر تبدیلی لانا ہوگی، پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا اور ذاتی گاڑیوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ پرانی گاڑیوں کو جدید انجن سے اَپ گریڈ کرنے کی پالیسی بنانا ہوگی، اور آلودگی پیدا کرنے والے عوامل پر بھاری جرمانہ عائد کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کیے تو یہ آلودگی نہ صرف ہماری صحت بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال دے گی۔