مسئلہ صرف شادی ہالز کے ٹیکس کا نہیں!

240

شادی کسی بھی معاشرت کا بنیادی حصہ ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ فریضہ متوسط اور غریب طبقے کے لیے ایک ڈرائونا خواب بنتا جارہا ہے۔ ملک میں جاری معاشی بحران، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی قوتِ خرید نے والدین کو شدید پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ شادی کے اخراجات جیسے جہیز، زیورات، اور دیگر انتظامات پہلے ہی ایک بوجھ تھے، جن میں سے کئی ہم نے اپنے اوپر خود مسلط کیے ہیں، لیکن اب شادی ہالز پر 10 فی صد ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ نے اس بوجھ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے اس فیصلے کے مطابق شادی ہال کی بکنگ کرنے والے افراد کو کرائے کے ساتھ ساتھ اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جو براہِ راست صارفین پر اثرانداز ہوگا۔ دوسری جانب شادی ہال مالکان کا کہنا ہے کہ اس ٹیکس سے ان کا کوئی تعلق نہیں، اور مکمل بوجھ عوام کو اٹھانا ہوگا۔ یہ صورتِ حال نہ صرف شادی کو مزید مشکل بنائے گی بلکہ والدین کے لیے نفسیاتی دباؤ بھی پیدا کرے گی۔ ماضی میں لوگ اپنے گھروں میں یا چھوٹے پیمانے پر تقریبات منعقد کرتے تھے، جس سے نہ صرف مالی دباؤ کم ہوتا تھا بلکہ یہ دینی اور تہذیبی اقدار کے عین مطابق بھی تھا، لیکن ڈیکوریشن اخراجات اب اتنے زیادہ ہیں کہ لوگ اپنی حیثیت کے مطابق ہال کا رخ کرتے ہیں کیونکہ گھر پر انتظام کرنا بھی آسان نہیں رہا ہے، اس کی بھی اہم وجہ حکومتی بدانتظامی ہے کہ شہری امور سے متعلق کوئی ادارہ اپنے حصے کا کام نہیں کررہا ہے، کہ پوچھے کہ شادی ہال مالکان کا ایک طبقہ چار سے پانچ لاکھ اور اس سے بھی زیادہ کرایہ کس بنیا د پر لے رہا ہے؟ پہلے ہی بینکوئٹ اور شادی ہال کے کرائے غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں، ان ہالوں کے کرائے، تزئین و آرائش، اور اضافی سہولتوں کے اخراجات نے شادی کو ایک سادہ تقریب سے مہنگے ایونٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ اس پر مزید ٹیکس لگانے سے یہ اخراجات مزید بڑھ جائیں گے، جس کا بوجھ براہِ راست عوام پر پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسے فیصلے کرکے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے ان کے مسائل کم کرنے کی کوشش کرے۔ شادی ہال پر عائد ٹیکس کے فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلے کا کوئی متبادل حل تلاش کیا جاسکے۔ اگر حکومت واقعی عوام کی بھلائی چاہتی ہے تو اسے شادی کے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات میں اسراف اور نمود و نمائش کے رجحان کو روکا جائے اور لوگوں کو آسان اور سادہ شادیوں کی طرف راغب کیا جائے۔ مسجد کو ایک سماجی ادارے کے طور پر فعال بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ماضی میں مسجد نہ صرف عبادت کا مقام تھی بلکہ سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہوا کرتی تھی۔ اگر مسجد کو نکاح اور شادی بیاہ کی تقریبات کا مرکز بنایا جائے تو یہ نہ صرف دینی تعلیمات کی پیروی ہوگی بلکہ معاشرے کو بے جا اخراجات اور فضول رسوم سے بھی نجات ملے گی۔ جہاں بڑی اور وسیع مساجد موجود ہیں، وہاں ایسے انتظامات کیے جا سکتے ہیں جہاں نکاح اور ولیمہ کی چھوٹی تقاریب منعقد ہوں، کیونکہ ہر فرد کے لیے مہنگے شادی ہال اور بینکوئٹ کا خرچہ برداشت کرنا ممکن نہیں۔ اسی طرح حکومتی سطح پر بھی شہری انتظامیہ کے تحت ایسے کمیونٹی سینٹر قائم کیے جانے چاہئیں جہاں شادی کی تقریبات آسانی سے اور مناسب اخراجات کے ساتھ منعقد کی جا سکیں۔