شام میں مزاحمت کاروں نے حما شہر سے حکومت کی حامی فورسز کو پسپا کردیا ہے جس کے بعد شمالی شام میں اپنی تیز ترین پیش قدمی میں باغیوں کو ایک اور اہم کامیابی حاصل ہو گئی ہے۔ جمعرات کے روز حما میں باغیوں کی برتری بشار الاسد حکومت کے لیے ایک اور بڑا دھچکا تھی۔اسدی فوج نے کہا ہے کہ شدید جھڑپوں کے بعد شہریوں کے تحفظ کے لیے شہر کے باہر مزید کمک پہنچائی جا رہی ہے۔ شامی اپوزیشن کے مزاحمت کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ حما کے شمال مشرقی اضلاع پر ان کا قبضہ ہو گیا ہے اور انہوں نے سینٹرل جیل کا کنٹرول حاصل کر کے قیدیوں کو رہا کردیا ہے۔ خلیجی نیوز چینل الجزیرہ نے ایسی تصاویر اور وڈیوز نشر کی ہیں جن کے مطابق مزاحمت کار جنگجو حما میں شہریوں سے مل رہے ہیں اور سڑکوں پر گاڑیوں میں گشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے شمالی شہر حلب کا قبضہ حاصل کر لیا تھا جس کے بعد سے وہ شام کے جنوب کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔ حما 2011 ء میں شروع ہونے والی خانہ جنگی سے اب تک بشار حکومت کے قبضے میں رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اس پر باغیوں نے کنٹرول حاصل کیا ہے جس کی وجہ سے دمشق میں قائم حکومت کو خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ جنوب کی جانب پیش قدمی میں باغیوں کو مزید کامیابیاں مل ہو سکتی ہیں۔ بشار الاسد اپنی حکومت کا دفاع کرنے کے لیے روس اور ایران پر غیر معمولی انحصار کرتے ہیں۔ ان اتحادیوں نے بہت مشکل حالات میں بشارالاسد کا ساتھ دیا ہے۔ 2020 ء میں کئی اہم شہر دوبارہ حکومتی کنٹرول میں لانے کے لیے انہیں مدد فراہم کی تھی۔گزشتہ ہفتے شمالی شام میں اپوزیشن کے سامنے فوج کی پسپائی سے بشار الاسد کے اتحادیوں کی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے۔ روس کی ساری توجہ یوکرین میں 2022 ء سے شروع کی گئی جنگ پر ہے جب کہ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی مدد سے لڑنے والی سب سے بڑی ملیشیا حزب اللہ کو اسرائیل کے حملوں سے شدید نقصانات کا سامنا ہے۔ حما میں جنگجوؤں کے داخلے کے بعد باغیوں کی پیش قدمی کی قیادت کرنے والی تنظیم ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے ایک وڈیو بیان جاری کیا جس میں انہوں نے ایران اور عراق کی حمایت یافتہ حشد الشعبی ملیشیا کو شام سے دور رہنے کی وارننگ دی ۔ جولانی نے اپنے بیان میں عراق کے وزیرِ اعظم پر زور دیا ہے کہ وہ عراق کو شام کے تنازع سے دور رکھیں بصورتِ دیگر اس جنگ کے شعلے عراق میں بھی داخل ہو سکتے ہیں۔ حلب سے دمشق کی جانب سفر میں حما ایک تہائی فاصلے کے بعد واقع ہے۔ حلب کے بعد حما پر قبضے کے بعد باغیوں کے لیے حمص کا راستہ بھی کھل جائے گا جو شام کے سب سے زیادہ آبادی والے خطے کے سنگم پر واقع ہے۔ حما اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے 2بڑے علاقوں میں شام کی 2بڑی مذہبی اقلیتیں بستی ہیں۔ محردہ میں مسیحیوں کی بڑی تعداد ہے جب کہ سلیمانیہ میں اسماعیلی خاصی تعداد میں آباد ہیں۔ اگرچہ حما پر کبھی باغیوں کا قبضہ نہیں رہا ہے تاہم تاریخی طور پر یہ اسد خاندان کی شام پر خاندانی حکومت کی مخالفت کا مرکز رہا ہے۔ 1982 ء میں اخوان المسلمون نے وہاں سے بغاوت کا آغاز کیا تھا جسے کچلنے کے لیے شام کی فوج نے 3ہفتوں پر مبنی شدید کارروائی کی تھی۔ ان حملوں میں 10 ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ اس کارروائی کو باغیوں سے نمٹنے کے لیے اسد حکومت کا بنیادی ماڈل بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جولانی نے اپنے بیان میں 40سال قبل ہونے والی اس کارورائی کا حوالہ بھی دیا تھا۔
سنی ملیشیا ہیئت تحریر الشام(ایچ ٹی ایس) مزاحمت کاروں کا سب سے طاقت ور گروپ ہے۔ یہ شام میں القاعدہ کی شاخ کے طور پر بھی فعال رہی ہے۔ اس کے قائد جولانی نے شام کی مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ بشار حکومت کا ساتھ چھوڑ دیں۔ تاہم اس تنظیم سے متعلق اقلیتی کمیونٹی میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔بدھ کے روز جولانی نے حلب کا دورہ بھی کیا تھا جو باغیوں کے لیے ایک تاریخی موقع تھا کیوں کہ بشار حکومت نے انہیں 2016 ء میں وہاں سے پسپا کردیا تھا جس کے بعد وہ اب یہاں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ایچ ٹی ایس اور دیگر گروپ حلب پر اپنی گرفت مضبوط کر کے اپنی حکومت قائم کرنا چاہے جس طرح انہوں نے شمال مغربی خطے میں قائم کر رکھی ہے۔ حما کی جانب بڑھنے والے جنگجوؤں میں ترکیہ کی حمایت یافتہ سیرین نیشنل آرمی (ایس این اے) بھی شامل ہے۔ ایس این اے شام اور ترکیہ کی سرحد پر ایک پٹی پر کنٹرول رکھتی ہے۔ترکیہ اگرچہ ایچ ٹی ایس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے تاہم وہ باغیوں کی پیش قدمی میں شامل دیگر کئی گروپس کا حامی ہے۔ تاہم انقرہ باغیوں کے حلب پر قبضے اور شام میں جاری پیش قدمی سے کسی بھی تعلق کی تردید کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق کئی برسوں بعد شام میں اچانک باغیوں کی پیش قدمی میں تیزی اور خانہ جنگی میں شدت آنے سے مشرقِ وسطیٰ کا خطہ مزید بے یقینی کا شکار ہوسکتا ہے جہاں لبنان اور غزہ میں جاری تنازعات کی وجہ سے پہلے ہی بے چینی پائی جاتی ہے۔
ہیئت تحریر الشام(ایچ ٹی ایس) کون ہے؟
حلب کی جنگ کو آپریشن ڈیٹرینس آف ایگریشن کا کوڈ نیم دیا گیا۔ اس حملے کی قیادت ہیئت تحریر الشام یا ایچ ٹی ایس کر رہی ہے۔ یہ گروہ شمال مغربی شام میں ادلب کے صوبے کا زیادہ تر علاقہ کنٹرول کرتا ہے۔ پہلے اسے النصرہ فرنٹ کہا جاتا تھا اور یہ شام میں القاعدہ کی مرکزی متعلقہ تنظیم تھی تاہم 2017 ء میں اس نے القاعدہ سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی کے سینیئر فیلو ایرون زیلین کے مطابق اس گروپ کے موجودہ اہداف عالمی نہیں بلکہ مقامی نوعیت کے ہیں۔ ان کی صفوں میں آج بھی غیر ملکی جنگجو شامل ہیں اور انہوں نے اسرائیل پر حماس کے 7اکتوبر کے حملوں میں بھی اس کا ساتھ دیا تھا۔ایک اندازے کے مطابق ایچ ٹی ایس کے پاس 30 ہزار جنگجو ہیں جن میں سے زیادہ تر شمال مغربی شام میں موجود ہیں۔ ایچ ٹی ایس ان سیاسی مزاحمت کاروں میں شامل ہے جو داعش اور القاعدہ کی طرح ہر اقدام انتہاپسندانہ نظریات کے تحت نہیں کرتے۔ یہ گروہ اپنے فیصلوں میں سیاسی اہداف کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بشار حکومت کے خلاف جنگ میں دل چسپی رکھتے ہیں ۔
ترکیہ کی حمایت سیرین نیشنل آرمی
حلب پر حملے میں شامل دیگر گروہوں میں سے ایک سیریننیشنل آرمی یا ایس این اے شامل ہے۔ یہ ترکیہ کے حمایت یافتہ مختلف مسلح گروپس کی سرپرست تنظیم ہے۔ایس این اے دراصل شمال مغربی شام میں 2017 ء میں ترکیہ کی حمایت سے قائم ہونے والی عبوری حکومت کی مسلح فورس کے طور پر قائم ہوئی تھی۔ ایس این اے 2018 ء اور 2019 ء میں ترکیہ کی مدد سے کرد فورسز پر حملوں میں شریک ہوئی تھی۔گزشتہ برس امریکی محکمہ خزانہ ایس این اے میں شامل 2اہم گروہ سلیمان شاہ بریگیڈ اور حمزہ ڈویژن پر پابندیاں عائد کر چکا ہے۔ ان گروہوں کے خلاف یہ اقدام شمالی شام کے عفرین خطے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ واشنگٹن میں قائم نیو لائنز انسٹیٹیوٹ سے منسلک کیرولائن روز کا کہنا ہے کہ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے درمیان موجودہ تعاون بہت ٹھوس نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ نے شمال مغربی شام میں پیدا ہونے والے حالات کے پس منظر میں شروع ہونے والی لڑائی میں دیر سے مداخلت کی ہے۔ تاہم یہ واضح ہے کہ حلب پر چڑھائی کے لیے انقرہ نے ایچ ٹی ایس اور این ایس اے کے درمیان مضبوط شراکت داری پیدا کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی ہے۔ اس سے قبل ترک وزیرِ خارجہ حقان فدان نے پیر کے روز اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ حلب کی صورتِ حال کسی بیرونی مداخلت کے بجائے کئی دیرینہ مسائل حل نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے مذاکرات سے مسلسل انکار کی وجہ سے بشار حکومت کو پر تشدد حالات کا ذمے دار ٹھہرایا۔
امریکی حمایت یافتہ کرد‘ ایس ڈی ایف
حلب پر حملے کے ساتھ ہی ایس این اے نے امریکا کے حمایت یافتہ کرد قیادت میں منظم سیرین ڈیموکریٹک فورسز یا ایس ڈی ایف کے خلاف حملے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایس ڈی ایف صوبہ حلب کے شمالی مضافات میں خاص طور پر تل رفعت کے آس پاس موجود ہے۔ ترکیہ ایس ڈی ایف کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ کیرولائن روز کا کہنا ہے کہ مختلف ترجیحات ہی اس بات کا تعین کریں گی کہ ایچ ٹی ایس اور ایس این اے کے درمیان شراکت داری برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایس این اے تل رفعت میں ایس ڈی ایف کی فورس کو پسپا کرنے کے لیے بڑھ رہی ہے جب کہ ایچ ٹی ایس اسٹریٹجک اہمیت کے حامل حلب میں اپنی حکومت قائم کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ترکیہ ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی پوری کوشش کرے گا۔ وہ چاہے گا کہ محاذ کا نقشہ اس طرح تبدیل ہو کہ جس سے بشار الاسد کی حکومت اس کا دباؤ بڑھے۔ دوسری جانب امریکا، ایران اور دیگر فریق بھی شام میں اپنی اپنی کوششیں کر رہے ہیں۔ حلب پر حملے میں آزادانہ کام کرنے والے کئی دیگر گروہ بھی موجود ہیں۔ ان میں احرار الشام بھی شامل ہے جو اسلامسٹ گروپس کا ایک اتحاد ہے جو شام کی خانہ جنگی کی ابتدا ہی میں قائم ہو گیا تھا۔ایک اور اسلامسٹ گروپ نور الدین زنگی موومنٹ بھی ان حملوں میں شریک ہے۔ یہ گروپ 2014 میں حلب میں قائم ہوا تھا اور ایچ ٹی ایس سے قریبی تعلقات رکھتا ہے۔