ستم ظریفی ہے کہ جو بلائے جان تھے وہ حزر جان ہوگئے جی ہاں کچھ یوں ہوا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو کبھی خواب و خیال میں بھی نہ تھا حکم آیا کہ تم نے پاگل، آوارہ، خارش زدہ، شہریوں کی جان کو خطرہ بنے، پاگل بن کر انسانوں میں افزائش کرنے والے کتے کیسے مار ڈالے، اب بھگتو! میرپور خاص کی یہ چونکا دینے والی خبر ہے اس شہر نامدار میں آوارہ، زخمی اور پاگل کتوں سے شہریوں کو نجات دلانے کے جرم میں جماعت اسلامی کے سیٹلائٹ ٹائون میرپور خاص سے منتخب کونسلر سید لیاقت شاہ اور کارکن جماعت اسلامی آصف صدیق آرائیں پر کتے ہلاک کرنے کا مقدمہ اور ان کی گرفتاری عمل میں آگئی۔ اُن کا جرم یہ قرار پایا کہ انہوں نے ان کتوں کو جو آئے روز شہریوں بالخصوص بچوں کو اچانک حملہ آور ہو کر بھنبھوڑ رہے تھے ان کو ہلاک کرکے شہریوں کے تحفظ کا سامان کیوں کیا؟ اس کارروائی نے یہ ثابت کردیا کہ پاگل اور آوارہ انسانوں کو کاٹ کھانے والے کتے ’’اشرف مخلوقات‘‘ انسان سے بڑھ کر حقوق کے حامل ہیں انہیں چھوٹ ہے کہ وہ جس کو چاہیں اُس کو کاٹ کھانے کو دوڑیں اور موقع مل جائے تو بوٹی لے اُڑیں اور انہیں کچھ نہ کہا جائے۔ پہلے اس صورتحال پر یہ جملہ مشہور تھا کہ ظلم کا یہ عالم ہے کہ کتے کھلے ٹلے ہوئے ہیں اور پتھر بندھے ہوئے ہیں۔ اب کہتے ہیں کہ یہ پتھر کے دور کا زمانہ نہیں، انسانوں کو قانون سے باندھنے اور پاگل کتوں کو کھلی آزادی کا دور ہے۔
یہ کیسے حکمران ہیں کہ جن کو کتوں سے پیار ہے اور انسانوں سے نفرت ہے۔ کتے اگر کاٹ کھائیں تو ان پر کوئی تعزیر نہیں، ہاں یاد آیا کہ جب سندھ میں پاگل کتے کے کاٹنے کی وارداتیں بڑھ گئیں اور اس کی ادویہ سے بانجھ سرکاری اسپتالوں کے خلاف نفرت بڑھنے لگی تو یار لوگوں نے کتوں کے لیے ہائوس اور مخصوص پٹے کا طریقہ کار ایجاد کرکے ان کو وی آئی پی پروٹوکول دے کر ان کے علاج اور خوراک کی مد میں خوب کمائی کا سامان کیا۔ اور ٹیمیں تشکیل دی گئیں کہ وہ پیار محبت سے پچکار کر ان آوارہ، پاگل، خونخوار کتوں کو دام فریب کے ذریعے پٹا ڈال کر ان کے لیے تیار کردہ معالج گاہ لے آئیں ان دنوں شوقیہ کتے پالنے والے مالکان کو باادب کہا گیا کہ وہ اپنے کتوں کو پٹا ڈال کر رکھیں آوارہ نہ ہونے دیں۔ چومنے چاٹنے کا شوق پورا کریں۔ خزاں کے اس موسم میں کتے پاگل ہوتے ہیں ان کے سر زخمی ہوجاتے ہیں اور یہ زخم اس وجہ سے بڑھتے ہیں کہ کتے کی زباں اس زخم تک نہیں پہنچ پاتی ہے جس کے لعاب میں حکما کے بقول زخم بھرنے کی افادیت قدرت نے رکھی ہے۔ کچھ عشرے پہلے ان ایام خزاں میں پاگل، آوارہ ہونے والے کتوں کو جھاڑنے اور دھرتی کو ان سے پاک کرنے کے سرکار کی مدعیت میں کتے مار مہم شروع کی جاتی تھی۔ بلدیہ کے ملازم سرکار کی طرف سے ملنے والی زہر کی گولیاں حلوے میں چھپا کر کتوں کے آگے ڈالتے وہ حلوہ دیکھ کر لپکتا اور یوں گولی اس کے پیٹ میں اتر کر اس کا کام تمام کردیتی اور یوں پھر یہ تذکرے بھی ہوتے کہ حلوہ کتوں کو کم کھلایا خود کھا گئے اور بھاری بل بنا ڈالا۔
ہمارے شہر کے سماجی کارکن ملاں محبوب ہوا کرتے تھے وہ پاگل، خارش زدہ کتوں پر خصوصی نظر رکھتے اور جوں ہی ان کی نظر میں کوئی کتا آیا وہ بلدیہ سے رجوع کرتے اور وہ آخری پاگل کتے کی ہلاکت تک بلدیہ کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے رہتے، کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جب انہوں نے پاگل کتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر شورو غوغا کیا تو اس کام کے نگراں نے انہیں کہا کہ مولانا دو گولیاں ہیں کتے زیادہ ہیں ایک گولی آپ کھالیں ایک میں کھالیتا ہوں تا کہ دونوں کا درد سر ختم ہوجائے تو یہ اچھا ہوا نئے کتے بچائو حکم نامے سے پہلے ملاح محبوب اللہ کو پیارے ہوگئے ورنہ پوری زندگی سزا کاٹتے اور کوئی آوارہ کتا نسل کشی دیکھ کر اُن کو کاٹ کھاتا۔ کیا یہ دور کتوں کا اور وہ بھی پاگل اور آوارہ کا ہے کہ جس کو مرضی میں آئے وہ بھونکے اس کو کاٹ کھائیں، بچوں کو ڈرائیں، زخموں کی سڑانڈ پھیلائیں اور اگر کوئی ان سے نجات دہندہ بن کر آئے تو اسے قانون کے پٹے سے باندھ دیا جائے کہ حضرت یہ کیا کررہے ہیں تمہیں علم ہے کیا انسان بے قدرا ہوگیا ہے۔ جانوروں کی قدر بلند ترین سطح پر ہے۔ ان کی درندگی پوری دنیا میں عروج پر ہے۔ جماعت اسلامی جو پاگلوں، کارش زدہ، بھنبھوڑنے والوں کے خلاف سرگرم عمل ہے کہ معاشرہ کو اس سے نجات ملے اور لوگ سکھ کا سانس لیں سو اس کے روکنے کے ہتھکنڈے ہیں؟ انسان کے لہو کی قدر و منزلت اب کتے جتنی بھی اس نئی تہذیب نے نہیں رہنے دی ہے ایک طرف غزہ میں اور خود پاکستان میں بے دردی سے خون بہایا جارہا ہے۔ درندے بستیوں پر ٹوٹ رہے ہیں، بمباری سے انسانوں کے پرخچے اڑ رہے ہیں مگر کسی کا ضمیر اتنا بھی نہیں جاگ رہا ہے جتنا کتوں کے ہلاک کرنے پر جاگا۔ نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے، یوں ہی نہیں کہا گیا! یہ شرف انسانیت کی تزلیل نہیں تو اور کیا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی اور کیا ہوتی ہے۔
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے کتے!
جس کو تم چاہو وہی حسن کرشمہ ساز ٹھیرے
جماعت اسلامی کا پاگل کتوں سے نجات دلانا جرم قرار پایا۔