نظریے کی روشنی میں پاکستان کا حال، ماضی و مستقبل

397

ہندوستان میں انگیرزوں کی آمد سے آج تک جس طرح سادہ لوح عوام سے حقائق چھپانے کا سلسلہ جاری ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چہرے بدل گئے ہیں لیکن ہتھیار وہی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملکہ برطانیہ کے توسط سے ہندوستان میں رسائی، شہزادے کے علاج کے بہانے محلوں تک رسائی، سوات کے مقام پر پہلی تجارتی کوٹھی کا قیام، رفتہ رفتہ ڈھائی لاکھ کی فوج تیاری، بمبئی تک انگریزوں کا اثر و نفوذ، تمام ملک کی تجارت کا آہستہ آہستہ برطانیہ کے ہاتھوں میں چلے جانا، 1662 میں بنگال کا قحط عام دنوں کی نسبت قحط سالی میں 300 گنا مہنگا غلہ بیچنے سے ایک کروڑ افراد کی بھوک و خوراک نہ ملنے سے اموات، مقامی جولاہوں کے ہاتھ کاٹ دیے، مقامی مزدوروں کے ہاتھ کاٹ دیے، مقامی صنعت تباہ و برباد کردی گئی، ہندوستان جو سونے کی چڑیا کہلایا جاتا تھا بھوک و فاقے سے ڈھائی سو افراد موت کے گھاٹ اُتر گئے، ٹیکس کی شرح 40 فی صد سے بڑھا کر 60 فی صد کردی گئی، انگریزوں نے رفتہ رفتہ تمام ہندوستان قبضے میں لینے کے لیے مقامی غداروں کا ساتھ ملانا شروع کیا کہیں پلاسی میں میر جعفر میسر آگیا جس نے توپ کے دہانے انگریز حکومت کے خلاف کھولنے سے منع کردیا، تو کہیں میر صادق میسر آگیا جس نے شیر میسور ٹیپو سلطان کی شہادت اور انگریز سرکار کی میسور تک رسائی کو یقینی بنادیا۔ انگریز غداروں اور انعام و مراعات کی لالچی لوگوں کے باعث باآسانی ریاستوں کے قلعے فتح کرتی رہی۔ لیکن پھر چند مٹھی بھر مجاہدین اٹھے انگریز حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ امیر المومنین سید احمد کی سپہ سالاری میں شاہ اسماعیل شہید کے ساتھی سرحد کے سکھ مہاراجا رنجیت سنگھ کی آلات حرب سے لیس دس ہزار فوج سے بہادری سے لڑتے ہوئے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی وہ چند مٹھی بھر مجاہدین سپرد خاک تو ہوگئے لیکن ہندوستان کے باسیوں میں انگریزوں سے آزادی کی شمع روشن کردی۔ جس کے باعث 1857 میں جنگ آزادی کے متوالے ہاتھوں میں شمع آزادی لیے انگریزوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ انگیرزوں کے خلاف عوامی بغاوت پھوٹ پڑی۔ ہندو، سکھ، مسلم پارسی سب انگریزوں کے ظلم کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ لیکن جنگ آزادی کے اختتام پر انگریز حکومت کے ہاتھوں یہ تمام آزادی کے رکھوالے گرفتار ہوئے۔ سیکڑوں سولی پر چڑھائے گئے، سیکڑوں مسلمان توپ کے گولوں کے منہ پر باندھ کر گولوں کا منہ کھول دیا گیا۔ ہندوستان کے تمام بڑے بڑے درختوں پر ان حریت پسندوں کی لاشیں دن رات لٹکی عبرت کا نشان بنی رہتی۔ 4 ہزار انگریز فوج کے قتل کا بدلہ انگریز حکومت نے 3 لاکھ ہندوستانیوں کو شدید ذہنی و جسمانی تکالیف دے کر موت کے گھاٹ اتار کر لیا۔ پورے ہندوستان پر مکمل قبضہ حاصل کرنے کے بعد ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کی۔ ہندو مسلم سکھ عیسائیوں کو آپس میں لڑوا کر ایک دوسرے کا دشمن بنادیا۔ کٹر مولویوں کو وہابی قرار دیا گیا۔ آخری دو اہم کام جو ہندوستان کے 200 سال کے بہت اہم کام ہیں وہ یہ کہ انگریزوں نے اپنے وفاداروں سے اس تحریک آزادی کو غدر لکھوا کر اپنے تمام مظالم کو ہنگامہ آرائی برپا کرنے والوں کے خلاف سزائیں اور وعدہ خلافی لکھوا کر تاریخ کی کتابوں میں محفوظ کروالیا۔ ہندوستان میں ایسی انگریزی تعلیم اور لارڈ میکالے کا نظام تعلیم نافذ کیا جس کے باعث لوگ انگریزوں کو اپنا نجات دہندہ اور آزادی حاصل کرنے والوں کو حقیقت میں دہشت گرد اور انتہا پسند سے تعبیر کیا جانے لگا۔ انگریزی زبان سے محبت اور فارسی سے نفرت پیدا کی جانے لگی۔ انگریز مظالم کرنے والے معزز ٹھیرے اور حریت پسند دہشت گرد کہلائے جانے لگے۔

یہ ایک خاص قسم کا پروپیگنڈا ہوتا ہے جس کے تحت شخصیات، واقعات اور مہمات کو مشہور یا بدنام کرنے کے لیے حقائق سے زیادہ جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ جھوٹ اتنی ڈھٹائی سے اور اتنا زیادہ بولا جاتا ہے کہ سچ لگنے لگتا ہے اور لگتے لگتے سچ بن بھی جاتا ہے۔ آج تک غیر ملکی اثر رسوخ کے باعث ہمارے اپنے معاشرے میں اس طرح کی بہت سی مثالیں مل جائیں گی جو ایک خاص ایجنڈے اور میڈیا پروپیگنڈے کے باعث شہرت کی بلندیوں تک پہنچی یا دہشت گرد قرار دی گئی۔ 11/9 کے بعد بیان دکھتا لیکن بعض پر ہم بھی شک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

پروپیگنڈے کی تین اقسام ہیں۔ 1۔ سفید پروپیگنڈا: جس میں صرف سچ سے کام لیا جاتا، 2۔ سیاہ پروپیگنڈا: جس میں سو فی صد جھوٹ سے کام لیا جاتا۔ 3۔ گرے پروپیگنڈا: جس میں جھوٹ اور سچ دونوں سے کام لیا جاتا۔ یہ پروپیگنڈے کی سب سے خطرناک قسم ہے جس کے باعث سادہ لوح لوگوں کو باآسانی گمراہ کیا جاتا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد بنگالیوں کے ساتھ میڈیا کے ذریعے جس طرح کا جھوٹا پروپیگنڈا کیا گیا۔ ان کو غدار وطن، کمزور اور اخلاقی گراوٹ کا شکار گردانا جانے لگا۔ اور اس کے بعد پاکستان دو لخت ہوگیا۔ مشرقی پاکستان میں آج تک پاکستان سے محبت کی پاداش میں سولیوں کو چومنے والے یقینا پاکستان سے محبت کرتے تھے۔ 10 ہزار پاکستانی سانحہ سقوط ڈھاکہ میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ اسی پروپیگنڈے کے تحت ملک سے محبت کرنے والے دہشت گرد قرار پائے۔ ملک کو دو لخت کرنے والے ہیرو بن گئے۔ اسی پروپیگنڈے کے تحت جامعہ حفصہ لال مسجد میں قرآن کی تعلیم حاصل کرنے والی معصوم طالبات مجرم اور فاسفورس بم کا نشانہ بنادی گئی اور مساج سینٹر والی رقاصائیں ملک کا سافٹ امیج واضح کرکے مشہور ہوگئیں۔ ڈاڑھی اور پردے والے طالبان دہشت گرد قرار پائے لیکن انہیں گوانتاناموبے میں سخت اذیتیں دینے والے انسانی حقوق کے چمپئن بن گئے۔ یوان ریڈلے (مریم) مشہور صحافی طالبان کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر قید کے بعد مسلمان ہوگئیں۔ لیکن ان کی کسی نے نہ سنی کیونکہ میڈیا کا کام ایک خاص ایجنڈے کے تحت اپنے خیالات کو لوگوں کے دل و دماغ میں پیوست کرنا ہے۔ مختاراں مائی کیس ہو یا ملالہ کیس سوات میں 17 سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے والی جھوٹی ویڈیو ہو یا سانحہ بلدیہ فیکٹری میں حقائق مسخ کرنے والے واقعات میڈیا ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت اپنے خیالات کو لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا سے شہرت پانے والی منیبہ مزاری کا حالیہ واقعہ سب کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے معصوم اذہان تک رسائی پانے والی منیبہ مزاری پر کچھ حقائق سوشل میڈیا ہی کی زبانی آپ کے سامنے ہیں۔

منیبہ مزاری آج کل ایک بہت مشہور عوامی مقرر ہیں، فیس بک اور ٹیوٹر پر ان کے لاکھوں چاہنے والے ہیں، ان سے تحرک لیتے ہیں، بعض تو بیچارے ایسے جذباتی مداح ہیں کہ ان کی تقاریر سنتے سنتے ان کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ بقول منیبہ مزاری کہ وہ ایک ’’کنزرویٹو‘‘ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں، بہت چھوٹی (اٹھارہ سال کی) عمر میں ان کی شادی ہوگئی، پھر کار حادثہ ہوا شوہر کار میں سے کود گیا، میرا آدھا جسم کام چھوڑ گیا۔ ’’میرے اپنے‘‘ میرا ساتھ چھوڑ گئے، میری زندگی منجمد ہوگئی، میری زندگی کو دیمک لگنا شروع ہوگئی، کسی کام کی نہیں رہی تو شوہر نے طلاق دے دی۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں ابھروں گی۔ اس طرح کی تقریر وہ فورم پر کرتی ہیں اور پھر پورا ہال آنکھوں میں نمی لیے تالیاں پیٹتا ہے۔

محترمہ بڑھتے بڑھتے امن کی سفیر، معذوروں کی مشیر بن گئیں۔ مختلف کارپوریٹ اداروں (پونڈز اور باڈی شاپ وغیرہ) کی برانڈ ایمبیسڈر بن گئیں، اور آج کل چغتائی لیب کی ’’کمیونٹی سوشل ریسپانسیبلٹی‘‘ کی انچارج ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اور وہ یہ ہے کہ منیبہ مزاری کی شادی 2005 میں ایک ائر فورس آفیسر فائٹر پائلٹ سے ہوئی ہے (ائر فورس تمام فورسز میں ایک ایلیٹ پیشہ ہے اور فائٹر پائلٹس ایلیٹ آف ایلٹس مشہور ہیں)۔ 2008 میں کوئٹہ سے اپنے آبائی گھر جاتے ہوئے جیکب آباد کے قریب ان کی کار کی ٹکر ایک گدھا گاڑی سے ہوئی، دونوں زخمی ہوئے، اور جس طرح زیادہ تر ایکسڈنٹ میں ہوتا ہے کہ سیکنڈ سیٹر کو زیادہ چوٹ لگتی ہیں بالکل ایسے ہی منیبہ مزاری زیادہ زخمی ہوئیں، ان کے شوہر نے ان کا علاج سرکاری ملٹری اسپتال کے بجائے آغا خان اسپتال میں کروایا کہ کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔ بعد ازاں ان کا سماجی کام بڑھتے بڑھتے سفارت خانوں، ڈپلومیٹک ملاقاتوں اور غیر ملکیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے تک جا پہنچے۔ وزارت دفاع کے کسی بھی ملازم یا اس کے گھر والوں کے لیے غیر ملکیوں سے ملاقاتیں یا کسی بھی ملک کے سفارت خانے، خانہ فرہنگ، این جی او سے رابطہ رکھانا تادیبی جرم ہے۔ خرم شہزاد نے جب منیبہ کو ایسا کرنے سے منع کیا تو وہی ہوا جو شوبز کے ذریعے شہرت کی بلندیوں پر جانے والی سیڑھیوں پر قدم رکھنے والی ہر خاتون کو روکنے پر ہوتا ہے۔ 2014 میں انہوں نے اپنے شوہر سے خلع لے لی۔ اور ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت میڈیا میں باآسانی اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔

ہم جس دور میں رہ ہیں اسے Post- Truth Era کہتے ہیں، جہاں رائے عامہ اور نظریات حقائق پر نہیں جذبات پر بنائے جاتے ہیں احساسات سے چھیڑ چھاڑ کر کے سیاسی اور سماجی فوائد حاصل کیے جاتے ہیں اور رائے عامہ کو اپنے پیمانے پر ہموار کیا جاتا ہے۔

ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا