اہلِ نظر نے کہا ہے: ’’مال ایسی دولت ہے جو خرچ کرنے سے گھٹتی رہتی ہے اور علم ایسی لازوال دولت ہے جو خرچ کرنے سے بڑھتی چلی جاتی ہے‘‘۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے کْمیل بن زیاد نخعی سے فرمایا: کمیل! علم مال سے بہتر ہے، کیونکہ علم تمہاری حفاظت کرتا ہے اور تم مال کی حفاظت کرتے ہو، مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور علم خرچ کرنے سے بڑھتا چلا جاتا ہے (تاریخ بغداد)۔ علامہ ابن قیم جوزیہ لکھتے ہیں: ’’علم کو مال پر چند وجوہ سے فضیلت حاصل ہے: (1) علم انبیاء کی میراث ہے اور مال بادشاہوں اور سرمایہ داروں کی میراث ہے۔ (2) علم صاحب ِ علم کی حفاظت کرتا ہے اور صاحب ِ مال کو خود مال کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ (3) جب انسان مر جاتا ہے تو مال اس کی ملکیت سے نکل جاتا ہے اور علم قبر میں بھی ساتھ ہوتا ہے۔ (4) علم مال پر حاکم ہوتا ہے اور مال علم پر حاکم نہیں ہوتا۔ (5) مال مومن وکافر، نیک وبد سب کو مل جاتا ہے‘ لیکن علم ِ نافع صرف مومن کو ملتا ہے‘‘۔ (مفتاح دارالسعادہ)
مال کو عظمت کا پیمانہ نہ بنائو، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اقتدار اور مال کس کے لیے انعام کے طور پر اور کس کے لیے امتحان کے طور پر ہے۔ فارسی شاعر نے کہا ہے: ’’اگر روزی بہ دانش در فزودی؍ ز نادان تنگ تر نبودی؍ بہ نادانان چناں روزی رساند؍ کہ دانا اندراں حیراں بماند‘‘۔ مفہومی ترجمہ: ’’اگر روزی میں کشادگی کا مدار عقل پر ہوتا تو نادانوں سے زیادہ تنگ روزی کسی کی نہ ہوتی (لیکن اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے)‘ وہ احمقوں کو اس طرح روزی پہنچاتا ہے کہ دانا لوگ یہ سب کچھ دیکھ کر محو ِ حیرت ہو جاتے ہیں‘‘۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’لیکن جب انسان کو اس کا ربّ عزت اور نعمت دے کر آزمائے تو وہ کہتا ہے: میرے ربّ نے مجھے عزت دی اور جب اْس کا ربّ اسے روزی تنگ کر کے آزمائے تو وہ کہتا ہے: میرے ربّ نے مجھے ذلیل کر دیا‘‘۔ (الفجر: 15 تا 16) یعنی انسان فطرتًا خود پرست ہے، ہر کامیابی کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرتا ہے اور ہر ناکامی کا سبب دوسرے کو گردانتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس بابت یہ اصول بیان فرمایا: ’’(اے مخاطَب!) تمہیں جو اچھائی پہنچتی ہے، سو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تم کو جو برائی پہنچتی ہے، وہ تمہاری ذات کی طرف سے ہے‘‘۔ (النساء: 79) اپنی کارستانیوں اور ناکامیوں کا ملبہ کسی اور پر ڈالنا اور ہر کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنا یہ ہر دور میں لوگوں کا وتیرہ رہا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے: ’’(بنی اسرائیل کا یہ شعار ہے کہ) جب انہیں کوئی راحت نصیب ہوتی ہے تو کہتے ہیں: یہ ہمارا استحقاق ہے اور جب اْن پر کوئی بدحالی آتی ہے تو اْسے موسیٰ اور اْن کے اصحاب کی نحوست قرار دیتے، سنو! اْن کافروں کی نحوست اللہ کے نزدیک ثابت ہے لیکن اْن میں سے اکثر نہیں جانتے‘‘۔ (الاعراف: 131) بن
ی اسرائیل میں قارون نامی ایک بے انتہا دولت مند شخص تھا، قرآنِ کریم نے اْس کی دولت کی بہتات کو ان کلمات میں بیان فرمایا: ’’بیشک قارون موسیٰ کی امت میں سے تھا، پھر اس نے اْن پر سرکشی کی، جبکہ ہم نے اْسے اس قدر خزانے دیے تھے جن کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت بمشکل اٹھا پاتی تھی، جب اْس کی قوم نے اْس سے کہا: اِترائو مت، بیشک اللہ اِترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا‘‘۔ (القصص: 76) بجائے اس کے کہ قارون اتنی بڑی دولت عطا کیے جانے پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوتا، عَجز وانکسار کا پیکر بن جاتا، وہ عْجب ِ نفس میں مبتلا ہو کر کہنے لگا: ’’یہ مال تو مجھے اْس علم (وہنر) کی وجہ سے دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے‘‘۔ (القصص: 78) یعنی میں اس کا مستحق ہوں۔ پس مومن ہر کمال وعطا کو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کا نتیجہ قرار دیتا ہے، اس پر اِتراتا نہیں ہے۔ فارسی شاعر نے کہا ہے: ’’نہد شاخ پر میوہ سر بر زمین‘‘ یعنی برگ وبار سے لدی ہوئی شاخ جھک جاتی ہے، جبکہ پھل اور پھول سے محروم خشک شاخیں تنی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی حقیقت کو رسول اللہؐ نے ایک حدیث ِ پاک میں بیان فرمایا: ’’جو شخص اللہ کے لیے ایک درجہ عاجزی اختیار کرے گا اللہ تعالیٰ اْسے ایک درجہ سربلند وسرفراز فرمائے گا حتیٰ کہ اْسے جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے گا اور جو اللہ پر ایک درجہ تکبر کرے گا، اللہ تعالیٰ اْسے ایک درجہ گرا دے گا یہاں تک کہ اْسے پست ترین طبقے میں پہنچا دے گا‘‘۔ (مسند احمد) خلاصۂ کلام یہ کہ دنیا میں مادّی ترقی اور غلبہ جدید سائنسی اور فنی علوم سے بے بہرہ ہو کر حاصل نہیں کیا جا سکتا، انسانی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ ماضی کی تخیّلاتی عظمتوں میں کھوکر ہم مستقبل کی رفعتوں کے خواب تو دیکھ سکتے ہیں، تعبیر نہیں پا سکتے، اس کے لیے جہد ِ مسلسل، سعی ِ پیہم اور قوتِ ایمانی کے ساتھ ساتھ علم وعمل کا پیکر بننا ضروری ہے۔
جدید چین اور بحیثیت ِ قوم ہماری آزادی کے ایام قریب تر ہیں، لیکن چین اب جدید علوم وفنون میں امریکا کے ہم پلّہ بننے کی کوشش کر رہا ہے، وہ معاشی اعتبار سے دنیا کی دوسری بڑی قوت بن چکا ہے، نیز ہمارا حریف ملک بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بننے کی تیاری کر رہا ہے۔ جبکہ ہم اپنے اندر سیاسی اور معاشی استحکام پیدا کرنے میں ناکام ہیں، ہم معاشی اور معاشرتی اعتبار سے شکست وریخت سے دوچار ہیں۔ ہمارے پاس سیاستدان، حکمران اور قائدین تو ہیں، لیکن بصیرت وتدبّر کی حامل قیادت کا فقدان ہے۔ سیاستدان اپنی انائوں کے اسیر ہیں، اپنی ذات سے بلند ہوکر ملک وقوم اور دین وملّت کے عظیم تر مفاد کی خاطر قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آئے دن جلوس، دھرنے اور شہروں کا محصور ہونا ہمارا معمول بنتا جا رہا ہے، دنیا ہمیں حیرت سے دیکھ رہی ہے، ہمارے دوست ممالک بھی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ سیاسی اور معاشی اعتبار سے ایک غیر مستحکم ملک میں سرمایہ کاری کیسے کی جائے۔ ہم بعض ممالک کے بارے میں دعوے کرتے ہیں کہ اْن کی اور ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند ہے۔ بصد ادب گزارش ہے: قوموں اور ملکوں کی دوستی معاشقہ نہیں ہوتا، یہ دوطرفہ مفادات پر مبنی تعلق کا نام ہے، ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ کم دے کر زیادہ مفادات سمیٹے۔ کوئی اپنے مفادات اور سرمائے کو خطرات سے دوچار کرنا چاہتا ہے اور نہ ہماری خاطر کسی دوسرے ملک سے بگاڑ مول لینا چاہتا ہے۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک میں سے ہر ایک اپنے ممکنہ مفادات کا زائچہ بنا کر ہی پیش قدمی کرتا ہے۔ سو ایک قوم وملت کی حیثیت سے ہمیں سوچنا ہو گا۔ آج اگر ہم جدید علوم میں اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل رِجالِ کار پیدا کریں تو دنیا میں اْن کی طلب موجود ہے، آئی ٹی ایک ایسا شعبہ ہے کہ آج گھر بیٹھے ہزاروں ڈالر ماہانہ کمائے جا سکتے ہیں۔
ہمارے وطن ِ عزیز میں اس وقت تعلیم ایک منفعت بخش کاروبار ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل کالج ایک طالب علم سے اوسطاً پندرہ سے بیس لاکھ سالانہ فیس لے رہے ہیں، وہ بھی بعض صورتوں میں ڈالروں کی شکل میں لیتے ہیں۔ یہی صورتحال انجینئرنگ، بزنس اور دیگر شعبوں کی اعلیٰ تعلیم کی ہے۔ لہٰذا مالی لحاظ سے کمزور حیثیت والا کتنا ہی ذہین وفطین اور قابل کیوں نہ ہو، وہ وسائل کے فقدان کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہتا ہے۔ اشرافیہ کے مختلف اسکول سسٹم ہیں، ہمارے ہاں متعدد تعلیمی نظام کام کر رہے ہیں، اْن میں کوئی مرکزیت ہے نہ نصاب کی یکسانیت۔ گرانقدر فیسیں دے کر جو بچے ان اداروں میں تعلیم پاتے ہیں وہ اپنے ملک کی تاریخ سے نابلد ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک میں اسکول گریجویشن کی سطح تک تعلیم مفت اور لازمی ہوتی ہے، نصاب یکساں ہوتا ہے، اپنے ملک کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں پاکستانی سوچ، فکر، تہذیب اور اقدار کی حامل نسل تیار نہیں ہو رہی، جسے ہم پاکستان ساختہ کہہ سکیں، بلکہ ایک منتشر الخیال، خودی، خودداری اور خود آگہی سے محروم، اپنی دینی، ملّی اور قومی تفاخر وامتیازات سے عاری نسل تیار ہو رہی ہے جو احساسِ کہتری کا شکار ہے، وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں: ہم پاکستان میں نہیں رہنا چاہتے، مغربی دنیا اور اجنبی ماحول میں ہجرت کر کے رہنا ان کی ترجیح ہوتی ہے۔