ڈاکٹر طلال علی خان پاکستانی نژاد امریکی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے غزہ میں حالیہ دنوں کے دوران کئی ہفتے خدمات انجام دیں۔ وہ امریکا میں طبی خدمات کے علاوہ اوکلاہوما یونیورسٹی میں پڑھاتے بھی ہیں۔ کچھ ہفتے وہ غزہ کی پٹی میں اقوام متحدہ کے تحت فلسطینیوں کو طبی خدمات فراہم کرتے رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی جرائم کے دوران کئی ہفتے خدمات انجام دیں اس دوران وہاں ہولناک مظالم دیکھتے ہوئے زندگی کے بارے میں میرا نظریہ بدل گیا۔ غزہ سے واپسی کے بعد زندگی کے بارے میں میرا نقطہ نظر بدل گیا اب زندگی کے دبائو پریشانیاں میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کا مطلب ’’مزاحمت اور عزم‘‘ ہے۔ وہاں کے فلسطینی باشندے اس سے کہیں زیادہ خاص لوگ ہیں جتنا میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا‘‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’وہاں فلسطینیوں کے پاس کچھ نہیں ہے لیکن ان کے دل بہت بڑے ہیں‘‘ اخلاق اور سخاوت میں ان کے معیار بہت بلند ہیں۔ اسرائیلی فوج یوں تو پورے غزہ کو وحشیانہ طور پر نشانہ بناتی ہے لیکن اس کے چند خاص ٹارگٹ ہیں۔ وہ جان بوجھ کر اسپتالوں، اسکولوں، مساجد اور لائبریریوں کو نشانہ بناتی ہے۔ اگست میں چند ہفتے جہاں وہ تھے وہاں اسرائیلی فوج کو سولہ بار اسکولوں کو نشانہ بناتے ہوئے خود دیکھا۔ میں نے وہاں ایک مسجد بھی سلامت نہیں دیکھی۔ اسکولوں میں بے گھر افراد کی موجودگی کے نتیجے میں وہ قتل عام تھا۔ آج بھی اسرائیلی فوج یہی کررہی ہے۔ وہ صحت کے دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت منظم انداز میں غیر انسانی سلوک اور مظالم کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں غزہ کے اسپتالوں کو تباہ کرنے میں خاص دلچسپی ہے، وہ ڈاکٹروں اور طبی عملوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرتے ہیں انہیں قیدی بنا کر لے جاتے ہیں۔ اکثر اسپتال میں طبی مشینیں ڈائیلائسز اور آکسیجن یونٹ کو تباہ کردیا گیا یا جلا دیا گیا۔
طلال علی خان کہتے ہیں کہ غزہ میں ہر طرف ڈاکٹروں کے دائیں بائیں بلاتفریق بم گرتے ہیں۔ لیکن اس قدر وحشیانہ مظالم کے باوجود فلسطینیوں میں زندگی کا عزم اور حوصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خیموں میں بچوں کو عارضی جگہوں پر جاتے دیکھا جہاں خواتین انہیں قرآن پڑھاتی ہیں اور تعلیم فراہم کرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زندگی کے بارے میں میرا نظریہ بدل گیا میں نے فلسطینیوں میں ثابت قدم رہنے، آگے بڑھنے، خون کی ندیاں بہہ جانے کے باوجود زندگی کی اُمنگ جاری رکھنے کا عزم دیکھا۔ تباہی کی اس جنگ کو ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے جبکہ دوسری طرف عرب ممالک سمیت اسلامی ممالک ہیں جو زبانی بیانات اور محدود امداد سے آگے نہیں بڑھ سک رہے ہیں۔ جبکہ تمام مسلمان عرب عوام سمیت دل و جان سے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔ عرب صحافی اور محقق ہشام جعفر نے عربوں کے سرکاری موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومتی حقیقت پسندی کے بہانے اپنی قومی اور اقتصادی مفادات کو اقدار پر مقدم رکھتی ہے۔ اگر عربوں کی نااہلی نہ ہوتی تو اسرائیلی ریاست فلسطینی عوام کے خلاف جدید تاریخ کا سب سے گھنائونا جرم کرنے کی جرأت نہ کرپاتی اور تاریخ یاد رکھے گی کہ عرب نہ صرف خاموش رہے بلکہ ان میں سے بعض نے فلسطینی عوام کے قتل اور بھوک سے مرنے میں صہیونیوں کا ساتھ دیا۔ غزہ میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام اور تباہی پر عالمی خاموشی سے لگتا ہے کہ دنیا کو اس کی عادت سی پڑ گئی ہے۔ مغربی عوام احتجاجی مارچ کے بعد کچھ خاموشی کی طرف مائل نظر آرہے ہیں اور اسرائیلی قابض ریاست اسی طرح مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہے بلکہ کچھ آگے بڑھ کر نئے ہتھیار آزمانے میں مصروف ہے۔ فلسطینی دفاع کے ڈائریکٹوریٹ ایک پریس کانفرنس میں بتارہے ہیں کہ اسرائیلی افواج غزہ میں ایسے ہتھیار استعمال کررہی ہے جس سے مرنے والوں کے جسم بخارات بن کر ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ وہ پناہ گزین کیمپوں پر بھی خطرناک کیمیکل والے بم برسا رہا ہے۔ اب تک ملبے کے نیچے 10 ہزار لاپتا افراد اور 1760 شہدا کی لاشیں بخارات بن کر ختم ہوچکی ہیں۔ اسرائیل کے ایسے سنگین جرائم جن کو سن کر انسان کانپ جاتا ہے ان پر بزعم خود انسانی حقوق کے علمبردار خاص طور سے امریکا، برطانیہ، اسرائیل کی نہ صرف حمایت پر کمربستہ ہیں بلکہ ہر طرح کے ہتھیار کی فراہمی کا فرض بھی انجام دے رہے ہیں۔ وہ پیسے، ہتھیار، سپاہی، سازو سامان، سفارتی مدد اور جرائم پر پردہ ڈالنے سے لے کر جنگ بندی کو ناکام بنانے تک اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ لہٰذا وہ اس کے جرائم میں پوری طرح شریک ہیں۔ دنیا ان کو پہچان چکی ہے اور ان کے چہروں پر پڑا تہذیب اور انسانیت سے محبت کا نقاب اُتر چکا ہے۔