دین کی بنیاد پر خاندان کے افراد متحد ہوتے ہیں۔ ایک کلمہ توحید انہیں متحد کرتا ہے۔ یہ کلمہ عظمت والا ہے۔ نبی کریمؐ نے اہل قریش سے کہا تھا کہ تم یہ ایک کلمہ پڑھ لو عرب تمہارے تابع ہوگا اور عجم تمہارے زیر نگیں ہوگا۔ یہ ایک کلمہ خاندان والوں کو جوڑ دے گا اور شیر وشکر بنا دے گا، کسی بات کے ماننے کے لیے یہ کافی ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس کا حکم دیا ہے اور کسی بات کے رد کرنے کے لیے یہی کافی ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول نے اس سے منع کیا ہے۔
خاندان والے ایک دوسرے کے مددگار اور غمگسار ہوتے ہیں، خاندان میں کوئی مسئلہ درپیش ہو اس کو یہ مل جل کر حل کرتے ہیں۔ لڑکی کی شادی ہو یا لڑکے کی تعلیم کا معاملہ ہو یا تلاش معاش یا کچھ اور۔ یہی اتحاد انہیں معاشی لحاظ سے مستحکم کرتا ہے۔ خاندان کی فلاح وبہبود کے لیے یہ اسکیمیں چلا سکتے ہیں۔ ان کے اطراف جو نادار و پریشان حال ہیں۔ ان کی مدد کرسکتے ہیں۔ ایک مستقل فنڈ قائم کر کے انہیں قرضوں کی پریشانی یا سود کی لعنت سے چھٹکارا دلا سکتے ہیں۔ اس طرح اہل خاندان کا اتحاد خاندان کے لیے ہی نہیں بلکہ مسلم معاشرے کے لیے رحمت بن جاتا ہے۔
گفتگو کے آداب
لازم ہے کہ گفتگو میں شیرینی اور مٹھاس ہو۔ غیر ضروری گفتگو اور طول بیانی سے احتراز کریں۔ اللہ کے رسول کا اسوہ ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔ آپؐ شیریں گفتگو فرماتے اور کلام مختصر ہوتا۔ اسی لیے آپ کو جوامع الکلم کا لقب دیا گیا تھا۔ قرآن مجید میں بھی اس کی تعلیم دی گئی ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اور لوگوں سے میٹھی زبان سے بات کرو‘‘۔ (البقرہ: 83)
تلخ کلامی اور طنز وتعریض سے دل پھٹ جاتے ہیں تلوار کا گھاؤ مٹ سکتا ہے لیکن زبان کا زخم نہیں مٹ سکتا۔ یاد رکھیے جس سے تلخ کلامی کی ہو اس سے معافی مانگیں اور بارگاہ الہی میں توبہ کریں۔ گفتگو میں چغلی نہ ہو اور غیبت سے بچا جائے۔ سورہ حجرات میں اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ غیبت سے روزے دار کا روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔ نبی کریمؐ کے زمانے کا واقعہ ہے کہ دو عورتوں کے متعلق حضورؐ سے شکایت کی گئی کہ وہ روزے سے ہیں لیکن بڑی بے چینی محسوس کر رہی ہیں اور سخت تکلیف میں ہیں۔ حضور اکرمؐ نے ان کو طلب کیا اور ایک لگن میں قے کرنے کوکہا تو لگن میں خون کے ٹکڑے پائے گئے۔ اللہ کے رسول نے کہا کہ ان عورتوں نے روزہ تو رکھا لیکن روزے کی حالت میں انہوں نے کسی کی غیبت کی تو کسی کی چغلی کی، جس کی وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئی ہے۔
باہمی احترام
خاندان کے افراد ایک دوسرے کا احترام کریں اور قدر کریں کہ کسی کو نیچا اور گرا ہوا نہ سمجھیں۔ اللہ کے رسول کا اسوہ ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہے۔ غزوہ حنین کے بعد وہ خاتون آئیں جنہوں نے شیر خوارگی میں حضورؐ کو دودھ پلایا تھا۔ ان کا نام حلیمہ سعدیہ تھا۔ حضور انورؐ ان کے استقبال میں کھڑے ہوئے اور ان کے لیے ایک چادر بچھائی اور انہیںاس چادر پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ حدیث ہے:
’’جو شخص بڑوں کا احترام نہ کرے اور بچوں پر شفقت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔
اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے سامنے دوسرے بچوں کی تعریف نہ کریں، نہ اپنے بچوں کی ناقدری کریں۔ خدانخواستہ اگر امتحان میں فیل ہو جائیں تو دلاسا دیں اور یہی کہیں ؎
گرتے ہیں شہ سوار ہی میدان جنگ میں
کوئی بات نہیں آئندہ تم اچھے درجات سے کامیاب ہو جاؤ گے۔ ان شاء اللہ۔
اسلامی ماحول
گھر کا ماحول صاف ستھرا اور پاکیزہ ہونا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو یا تصاویر ہوں اس گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ گھر میں اگر ٹی وی ہو تو لغو اور لچر پروگرام نہ دیکھیں بلکہ درس قرآن اور واقعات صحابہ سے استفادہ کیا جائے۔ اپنے ٹی وی کو بھی مسلمان بنائیں اور اپنے موبائل کو بھی۔ بچے صبح بیدار ہوں تو سو کر اٹھنے کی دعا پڑھیں اور بڑوں کو سلام کریں۔ ایک ماں کو چاہیے کہ بچوں کو یہ کہتے ہوئے نہ سلائیں کہ بیٹے کل صبح جلد اسکول جانا ہے بلکہ یہ کہیں کہ جلد سو جاؤ کیونکہ صبح فجر کی نماز پڑھنی ہے۔ ہمارے گھر قرآن کی تلاوت سے معمور ہوں۔ معلوم ہو کہ یہ مسلمانوں کا گھر ہے۔ قرآن و حدیث اور سیرت کے لٹریچر سے ہمارے گھروں کو سجایا جائے۔
تعاون
بعض لوگ ضدی ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بڑے اصول پرست ہیں۔ یہ غلط قسم کی توجیہ ہے۔ حضور اکرمؐ کے زمانے میں ایک صاحب نے نماز پڑھائی تو انہوں نے نماز میں طویل قرأت کی۔ ایک صحابی ان کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے نماز توڑ دی اور گھر چلے گئے۔ غالباً یہ عشا کی نماز تھی اور وہ صحابی اپنے کام سے تھکے ماندے نماز میں شریک ہوئے تھے۔ اللہ کے رسولؐ سے ان صحابی نے امام صاحب کی شکایت کی کہ میں کھیتی باڑی کا کام کرکے تھکا ماندہ نماز میں شریک ہوا تو فلاں صاحب نے نماز کو طویل کر دیا۔ میں ان کے پیچھے قیام نہیںکر سکا، اس لیے نماز توڑ کر نکل گیا۔ یہ سن کر اللہ کے رسولؐ نے امام صاحب کو طلب کیا اور سخت خفا ہوئے۔ کہا کہ نماز مختصر پڑھانا چاہیے کیونکہ جماعت میں ضعیف بھی ہوتے ہیں، بچے بھی ہوتے ہیں اور محنت پیشہ لوگ بھی ہوتے ہیں تو چھوٹی سورتیں پڑھو۔
آنحضرتؐ کا یہی طریقہ تھا۔ آپ جب نماز پڑھاتے اور بچوں کے رونے کی آواز آتی تو آپ نماز مختصر کر دیتے اور فرماتے کہ مجھے بچوں کے رونے پر ان کی ماں کا خیال آیا کہ وہ بے چین ہوگئی ہوگی اس لیے میں نماز کو مختصر کر دیتا ہوں۔
مثالی خاندان کے افراد ضدی نہیں ہوتے بلکہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔ میاں بیوی کفایت کریں گے اتنا ہی ان کی زندگی سُکھی ہوگی، اس کے لیے بے جا خواہشات پر قدغن لگانی ہوگی۔ اس طرح کم اخراجات پر میاں بیوی کو سمجھوتہ کر لینا ہوگا۔ غیر ضروری چیزیں چھوڑ دینی ہوگی۔ باہمی سمجھوتے میں ایک اہم کام یہ ہے کہ بیوی اپنے خسر اور ساس پر اپنے باپ اور ماں جیسی محبت نچھاور کرے، ا سی طرح شوہر، بیوی کے رشتے داروں سے حسن سلوک کرے۔
مثالی خاندان کی تو شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ وہاں ہر وقت احکام خداوندی کی پابندی ہوتی ہے اور بار بار آیات قرآنی کا ذکر ہوتا ہے اور انہیں روز مرہ کے معاملات پر منطبق کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی مانگنے والا آئے تو اسے کچھ دے دیا جائے اور اگر کچھ نہ ہو تو اچھے طریقے سے معذرت کر لی جائے لیکن جھڑکا ہرگز نہ جائے۔
قرآن کی یہ آیت ہمارے سامنے رہے:
’’اور سائل کو نہ جھڑکو‘‘۔ (الضحی)
جوکام کریں خدا اور رسول کی ہدایات کے مطابق کریں۔ ہمارے گھروں میں مطالعہ قرآن وحدیث و سیرت کا نظم ہو۔ تاکہ ہمیں شعور حاصل ہو ہماری سعی و جہد اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے ہو۔
یہ سب امور جہاں انجام پائیں ایسا خاندان مثالی خاندان کہلائے گا۔